Subject: عظمتَ و فضائل شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ Thu Dec 09, 2010 1:53 am
عظمتَ و فضائل شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ
اللہ جل جلالہ اپنے بندوں کی دعائیں بھی قبول کرتا ہے اور انہیں آزمائش میں بھی ڈالتا ہے۔ ان کی قوت ایمانی کا امتحان بھی لیتا ہے اور انہیں ارفع و اعلی مقامات پر فائز بھی کرتا ہے۔ انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح کائنات میں سب سے بلند مراتب پر فائز فرمایا اور اپنے قرب و وصال کی نعمتوں سے نوازا اسی طرح انہیں بڑی کٹھن منزلوں سے بھی گزرنا پڑا۔ انہیں بڑی سے بڑی قربانی کا حکم ہوا لیکن ان کے مقام بندگی کا یہ اعجاز تھا کہ سر مو حکم ربی سے انحراف یا تساہل نہیں برتا، ان کی اطاعت، خشیت اور محبت کا یہی معیار تھا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی اور اس میں موجود جملہ نعمتوں کو اپنے مولا کی رضا کیلئے وقف کیے رکھا، حتی کہ اولاد جیسی عزیز ترین متاع کے قربان کرنے کا حکم بھی ملتا تو ثابت کردیا کہ یہ بھی اس کی راہ پر قربان کی جاسکتی ہے۔
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لخت جگر اور نور نظر تھے۔ سیدنا حسین علیہ السلام کو سبط پیغمبر اور پسر بتول و حیدر ہونے کے ساتھ ساتھ نسبت ابراہیمی بھی حاصل ہے۔ نیز شہادت امام حسین چونکہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی باب ہے اس لئے کائنات کی اسی منفرد اور یکتا قربانی کو ہی ذبح عظیم ہونے کا شرف حاصل ہے۔
حسین کی محبت اللہ کی محبت
عن يعلي بن مره قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسين مني و انا من حسين احب اﷲ من احب حسيناً حضرت یعلی بن مرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے۔ (جامع الترمذی، 2 : 219)
حسنین کی محبت، محبت رسول ہے
عن أبی هريرة رضي اﷲ عنه قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من أحبهما فقد أحبني و من أبغضها فقد أبغضني يعني حسنا و حسيناً. حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے حسن اور حسین دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ (مسند احمد بن حنبل، 2 : 28 تاجدار عرب و عجم حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے جس نے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ ذرا غور کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض رکھنے والے کا کہاں ٹھکانہ ہے؟ اس کے دین اور ایمان کی کیا وقعت ہے؟
باری تعالیٰ حسنین کریمین سے تو بھی محبت کر
عن عطاء ان رجلاً اخبره أنه رأی النبی صلی الله عليه وآله وسلم يضم اليه حَسَناً و حسيناً يقول اللهم أني أحبها فأحبها. حضرت عطاء سے روایت ہے کہ کسی شخص نے اسے بتایا کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین کو اپنے سینے سے چمٹایا اور فرمایا ’’اے اللہ میں حسن اور حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر،، (مسند احمد بن حنبل، 5 : 369)
بارگاہ خداوندی میں آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس ہاتھ اٹھے ہوئے ہیں معطر اور معتبر لبوں پر دعائیہ کلمات مہک رہے ہیں کہ باری تعالیٰ تو بھی حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو اپنی محبت کا سزاوار ٹھہرا، یہ دعائیہ کلمات بھی حضور رحمت عالم کے لب اقدس سے نکلے کہ اللهم انی احبهما فاحبهما ..... فمن احبهما فقد احبنی، مولا ! مجھے حسن اور حُسین علیہ السلام سے بڑا پیار ہے تو بھی ان سے پیار کر۔ جو حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے پیار کرتا ہے گویا وہ مجھ سے پیار کرتا ہے۔
عن ابی هريرة رضي اﷲ عنه قال رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و هو حامل الحسين بن علي و هو يقول اللهم اني احبه فاحبه حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسین علیہ السلام کو اٹھایا ہوا تھا اور یہ فرما رہے تھے اے اللہ میں اس (حسین) سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ (المستدرک للحاکم، 3 : 177)
اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا دم بھرتے ہیں، اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اپنا اوڑھنا بچھونا قرار دیتے ہیں، اگر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا تشخص گردانتے ہیں تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس سے محبت کرتے ہیں اور بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ میں حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض عداوت کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہیں آنا چاہیے بلکہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس محبوب سے والہانہ محبت کا اظہار کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گہری وابستگی کو مزید مستحکم بنانا چاہئے کہ قصر ایمان کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کا یہ ایک موثر ذریعہ ہے۔
اہل بیت کی محبت اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دراصل ایک ہی محبت کا نام ہے۔ ان محبتوں کو خانوں میں تقسیم کر نا، امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے، اس ملت اسلامیہ کو دوئی کے ہر تصور کو مٹا کر اخوت و محبت اور یگانگت کے ان سرچشموں سے اپنا ناطہ جوڑ لینا چاہیے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا طرہ امتیاز اور شوکت و عظمت اسلام کا مظہر تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حُسین علیہ السلام کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا گویا حسین سے نفرت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی عملاً نفی ہے اور کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
11. عن علی رضی اﷲ تعالی عنه قال قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم للحسين بن علي ’’من احب هذا فقد أحبني،، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین بن علی رضی اللہ عنھما کے بارے میں فرمایا "جس نے اس (حسین) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی''۔ (المعجم الکبير، 3، ح : 2643)
وہ حُسین علیہ السلام ابن علی رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں اور یہ کہ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حُسین علیہ السلام سے محبت کرتا ہے اب جس سے اللہ محبت کرتا ہے۔ اس سے عداوت رکھنا اور اس کا خون ناحق بہانا کتنا بڑا جرم ہے؟ استقامت کے کوہ گراں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کے دست پلید پر بیعت کرلے گا بالکل فضول سی بات ہے۔ اہل حق راہ حیات میں اپنی جان کا نذرانہ تو پیش کردیتے ہیں لیکن اصولوں پر کسی سمجھوتے کے روادار نہیں ہوتے اگر کربلا کے میدان میں حق بھی باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتا تو پھر قیامت تک حق کا پرچم بلند کرنے کی کوئی جرات نہ کرتا، کوئی حرف حق زبان پر نہ لاتا، درندگی، وحشت اور بربریت پھر انسانی معاشروں پر محیط ہوجاتی اور قیامت تک کے لئے جرات و بیباکی کا پرچم سرنگوں ہوجاتا اور نانا صلي الله عليه وآله وسلم کا دین زاغوں کے تصرف میں آ کر اپنی اقدار اور روح دونوں سے محروم ہوجاتا۔
امام عالی مقام نے اپنے نانا اور ابا کے خون اور اپنی امی کے دودھ کی لاج رکھ لی، حسین کامیاب ہوگئے۔ حسینیت زندہ ہوگئی۔ واقعی یہ خانوادہ اور اس کا عالی وقار سربراہ۔ ۔ ۔ ۔ اس ذبح عظیم کا سزاوار ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی روح بھی رشک کر رہی تھی کہ یہ شرف بھی انکی نسل کے ایک فرد فرید کے حصے میں آیا۔ حُسین علیہ السلام راہ خدا میں نذرانہ جان پیشں کر کے اور ملوکیت اور آمریت کے اندھیروں میں اپنے خون کے چراغ روشن کر کے ذریت ابراہیمی کی محافظت کی علامت بن گئے، شہادت عظمیٰ نے انہیں ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نشان بنا دیا۔
شہادت حُسین علیہ السلام تاریخ انسانی کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ پیغمبر کے پیروکاروں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کو بیدردی سے شہید کر کے اس کا سر اقدس نیزے پر سجایا۔ یہی نہیں خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہزادوں اور اصحاب حسین کو بھی اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کی بیعت کر کے دین میں تحریف کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، انہوں نے اصولوں پر باطل کے ساتھ سمجھوتے سے صاف انکار کردیا تھا۔ انہوں نے آمریت اور ملوکیت کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا تھا، انہوں نے انسان کے بنیادی حقوق کے غاصبوں کی حکومت کی توثیق کرنے کی بزدلی نہیں دکھائی تھی۔ حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے 72 جان نثاروں کے خون سے کربلا کی ریت ہی سرخ نہیں ہوئی، بلکہ اس سرخی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حُسین علیہ السلام قیامت تک کے لئے اسلام کی حفاظت کا ستون بن گئے۔
اقتباسات از : ذبح عظیم
ملک بلال Admin
Posts : 714 Join date : 26.11.2010
Subject: Re: عظمتَ و فضائل شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ Thu Dec 09, 2010 9:58 am
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم نہایت اس کی حسین ، ابتداء ہے اسماعیل
نعیم بھائی شکریہ اتنے اچھے اور ایمان افروز مراسلے کے لیے ازحد شکریہ
ھارون رشید ماہر
Posts : 1369 Join date : 28.11.2010 Age : 50 Location : اوکاڑہ شریف
Subject: Re: عظمتَ و فضائل شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ Thu Dec 09, 2010 5:48 pm
شاہ است حُسین، بادشاہ است حُسین دیں است حُسین، دیں پناہ است حُسین سر داد نداد دست در دستِ یزید حقّا کہ بنائے لا الہ است حسین
Munawar معاون
Posts : 72 Join date : 29.11.2010 Age : 40 Location : okara
Subject: Re: عظمتَ و فضائل شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ Sat Dec 11, 2010 10:26 pm
نعیم بھائی شکریہ اتنے اچھے اور ایمان افروز مراسلے کے لیے
Sponsored content
Subject: Re: عظمتَ و فضائل شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ