Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.



 
HomeHome  PortalPortal  GalleryGallery  Latest imagesLatest images  SearchSearch  RegisterRegister  Log inLog in  

 

 حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری

Go down 
AuthorMessage
ھارون رشید
ماہر
ماہر
ھارون رشید


Posts : 1369
Join date : 28.11.2010
Age : 50
Location : اوکاڑہ شریف

حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری Empty
PostSubject: حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری   حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری EmptySat Dec 11, 2010 5:19 pm

حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
از۔ مختار احمد کھوکھر



”اے پروردگار تو حاجی صاحب کو ہادی اور مہدی بنا، ہمیشہ ان سے لوگوں کو ہدایت نصیب ہو، ان کی عمر میں، رشد و صلاح و فلاح میں برکت عطا کر، بجاہ سید المرسلین صلّی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی رحمت اس بندہ پر ہو جو آمین کہے والسلام۔“

مندرجہ بالا الفاظ شیخ الشیوخ سرتاج الاتقیاء حضرت خواجہ احمد سعید شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں جو آپ نے سفر حرمین کا ارادہ فرماتے ہوئے قبلہ حضرت خواجہ حاجی دوست محمد قندھاری رحمۃ اللہ علیہ کو تحریرًا عنایت فرمائے تھے۔

حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق یوسف زئی درانی افغان قبیلے سے تھا۔ آپ کی پیدائش قندھار کے قریب اپنے آبائی گاؤں میں ۱۲۱۶ھ میں ہوئی۔ آپ حضرت اخوند ملا علی رحمہ اللہ کے فرزند ارجمند تھے۔ آپ کے بہن بھائی بکثرت تھے مگر وہ سب آپ کی ولادت باسعادت سے قبل ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔

آپ جب سن شعور کو پہنچے تو تحصیل علم کا شوق دامن گیر ہوا اور اپنے آبائی گاؤں ہی میں ابتدائی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ سب سے پہلے قرآن کریم باتجوید حفظ کیا اور پھر عربی اور فارسی زبان میں دینی تعلیم کا آغاز فرمایا۔ چونکہ گاؤں میں تحصیل علوم کے مواقع زیادہ میسر نہ تھے اس لئے علم کا شوق آپ کو کابل لے گیا جہاں جید علماء سے علم فقہ، حدیث اور تفسیر کی کتب کا درس لینا شروع کیا۔

آپ فرماتے ہیں کہ ایام جوانی میں ایک روز ہمعمر دوستوں کے ساتھ حضرت بابا ولی کے مزار شریف کی زیارت کو جارہے تھے کہ راستے میں ایک پریشان حال مجذوب درویش سے ملاقات ہوئی جو ہر طالب علم سے متعلق کوئی نہ کوئی بات یا اشارہ فرماتے۔ جب میں سامنے ہوا تو حضرت نے ارشاد فرمایا کہ

”یہ طالب علم بڑا صاحب کمال اور صاحب حال اولیاء اللہ میں سے ہوگا اور ولی کامل بنے گا، کیونکہ اس کی پیشانی میں اسرار معرفت ہویدا ہیں۔“

آپ فرماتے ہیں کہ زیارت کے بعد واپس قیام گاہ پر پہنچے اور تحصیل علم میں مشغول ہوگئے۔ مگر دوران تعلیم گاہ بگاہ اس مجذوب درویش جو اولیاء اللہ میں سے تھا کے الفاظ یاد آتے کہ ایک نہ ایک دن تو اس کی پیشین گوئی ضرور پوری ہوگی کہ ”کل امر ترھون باوقاتھا“ کے تحت علم الٰہی میں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔

چونکہ اہل معرفت و اولیاء اللہ سے انس و محبت آپ کے خمیر میں گندھی ہوئی تھی، اس لئے قیام قندھار و کابل میں دوران تحصیل علوم ہی یہ فطری جذبہ اپنی شدت اختیار کرگیا اور آپ کی طبیعت پر اضطراب و ہیجان کی کیفیت طاری ہوگئی، جس کی بناء پر آپ کے لئے علم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا بہت مشکل ہوگیا۔ تو آپ نے حرمین شریفین زادھما اللہ تعظیما و تکریما کی زیارت کے لئے رخت سفر باندھا اور کئی سال وہاں قیام پذیر رہے اور حج بیت اللہ کی سعادت سے مشرف ہوتے رہے۔ پھر مدینہ منورہ جو کہ عشاق کی منزل وجہ قرار ہے میں پہنچے اور طویل عرصہ یہاں قیام پذیر رہے اور علوم ظاہری بھی باقاعدگی سے مسجد نبوی میں ہی حاصل کرتے رہے اور قرآن شریف کو عربی قرات و تجوید سے پڑھا۔ مگر طبیعت میں جو بے قراری اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوچکی تھی اور وہ سینہ کا درد جو آپ کو کئی روز تک بے ہوش کردیتا تھا ختم نہ ہوا۔ مگر ایک واردات روحانی نے آپ کو مدینہ منورہ سے ہندوستان پہنچا دیا۔

ہوا یوں کہ ایک رات اسباق کے مطالعہ کے دوران اچانک آپ کے دل میں شاہ نقشبند ثانی حضرت شاہ عبداللہ المعروف شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کا شوق پیدا ہوا اور اس شوق نے اس قدر شدت اختیار کی کہ آپ واپس عازم قندھار ہوئے اور وہاں سے غزنی و کابل کے راستے پشاور پہنچے تو یہ جانکاہ خبر آپ نے سنی کہ حضرت شاہ صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کا وصال پرملال ہوگیا ہے۔ آپ کو انتہائی رنج و ملال ہوا۔ آپ واپس قندھار پہنچ کر تحصیل علم میں مشغول ہوگئے مگر وہ بے چینی اور درد کی ٹیسیں تھیں کہ برابر بڑھتی ہی رہیں۔ مجبورًا تعلیم کا سلسلہ موقوف کرکے بغرض علاج سفر پر روانہ ہوئے۔ مختلف بزرگان دین کی خدمتوں میں حاضری دی۔ اسی دوران سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی خواب میں زیارت ہوئی، تو آپ عازم بغداد ہوئے اور مرقد اطہر پر فاتحہ پڑھ کر بارگاہ الٰہی میں دعا کی کہ الٰہی میرے درد کی دوا فرما۔ مگر وہ بے چینی و اضطراب اور درد کی کیفیت آپ کے لئے وجہ آزمائش بنی رہی تو آپ کردستان کے شہر سلیمانیہ پہنچے اور یہاں حضرت شیخ عبداللہ ہرانی علیہ الرحمۃ کی تعریف سن کر آپ کی بارگاہ میں حاضری دی، مگر اضطراب باطنی میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ بالآخر حضرت موصوف کی خدمت میں آپ نے احوال پیش کیا تو انہوں نے آپ کو ارشاد فرمایا کہ آپ حضرت شاہ ابو سعید دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری دو، وہاں تمہارے درد کا درماں ہوجائے گا۔ گو کہ وہاں سے ہندوستان کا سفر کچھ آسان نہ تھا مگر آپ نے کمر ہمت کس لی اور مختلف علاقوں اور بزرگوں سے ملتے ہوئے آپ عازم دہلی ہوئے۔ دوران سفر آپ کچھ عرصہ حضرت مولانا محمد حسین دوسری کی خدمت میں قیام پذیر رہے اور آپ سے دورۂ حدیث مکمل کیا۔ پھر آپ قلات سے ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ بمبئی پہنچے تو معلوم ہوا کہ گوہر مقصود تو یہیں موجود ہیں جو کہ بغرض حج جہاز کے انتظار میں یہاں قیام پذیر ہیں۔ آپ یہ مسرت انگیز خبر سن کر انتہائی مسرور ہوئے، فورًا ہی آپ کی بارگاہ میں حاضری دی اور دست بیعت ہوئے اور اول تا آخر اپنی سرگذشت حضرت کی خدمت میں عرض کی جسے سن کر حضرت قبلہ نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری باطنی کشائش کے لئے وقت درکار ہے اور فقیر ابھی حج پر جارہا ہے۔ میرے روح کی تمام لطافتیں سرزمین حجاز کی طرف مرکوز ہیں، لہٰذا تم دہلی جاکر ہمارے فرزند حضرت شاہ احمد سعید (رحمۃ اللہ علیہ) کی صحبت اختیار کرو اور ان سے فیض حاصل کرو، یا پھر میرے حج سے واپسی تک یہیں ٹھہرے رہو۔

آپ فرماتے ہیں یہ ارشاد گرامی سن کر میں دہلی جانے کو ترجیح دی اور دہلی کی طرف عازم سفر ہوا۔ دوران سفر ایک رات ہم نے خواب میں دیکھا کہ حضرت شاہ احمد سعید فرما رہے ہیں کہ ”شما یاذون ہستید“ یعنی تم ہمارے خلیفہ ہو۔

خواب سے جیسے ہی بیدار ہوا حضرت کے دیدار کا شوق دو چند ہوا، اور ۱۲۵۰ ہجری میں دہلی پہنچ کر خانقاہ مظہریہ میں حضرت کے دیدار سے مشرف ہوا۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ جیسے ہی میری نظر حضرت والا تبار کے روئے تاباں پر پڑی میری تمام اضطرابی کیفیت جاتی رہی، میرا درد کافور ہوا اور سابقہ غموم و ہموم سے خلاصی نصیب ہوئی، اور بے اختیار زبان پر یہ شعر جاری ہو

منم کہ دیدہ بدیدار دوست کردم باز
چہ شکر گویمت اے کارساز بندہ نواز

یعنی دوست کے دیدار سے میری آنکھیں کھل گئیں۔ اے کارساز حقیقی! تیری اس بندہ نوازی کا کن الفاظ میں شکر ادا کروں۔

حضرت قبلہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے نور بصیرت سے دیکھ لیا کہ آنے والا بڑے ظرف کا مالک ہے اور اپنے اندر بے پناہ صلاحیتیں لئے ہوئے ہے۔ چنانچہ حضرت قبلہ نے آپ کو حلقہ ارادت و بیعت میں داخل فرماکر آپ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ مرکوز کردی۔ آپ کی اپنے شیخ حضرت قبلہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے محبت نسبت عشق کی حد تک تھی، اس لئے آپ نے مختصر مدت تقریبًا ایک سال دو ماہ اور پانچ دن کی مختصر مدت میں سلاسل اربعہ کا سلوک طے فرمالیا۔ قبلہ شاہ صاحب نے ساتھ تمام طرق مشہورہ کا اجازت نامہ خلافت بھی لکھ کر سرفراز فرمایا اور رشد و ہدایت کے کام کی باقاعدہ اجازت عطا فرمادی۔ قبلہ شاہ صاحب نے جو اجازت نامہ عنایت فرمایا اس کے الفاظ کا ترجمہ درج ذیل ہے۔

”فقیر احمد سعید مجددی تمام مریدین و دوستوں پر واضح کرتا ہے کہ میرے بھائی نیک بخت اور بزرگ حاجی الحرمین الشریفین و جامع العلمین خواجہ حاجی دوست محمد قندھاری صاحب نے، خداوند کریم ان کو اپنی ذات کے لئے خاص بنائے (آمین)، جب اس طریقہ عالیہ میں اس فقیر سے بیعت کی تو اس طریقہ کے اذکار و مراقبات میں مشغول ہوگئے۔ فقیر نے ان کو جملہ مقامات طریقوں نقشبندیہ مجددیہ، قادریہ و چشتیہ و سہروردیہ اور کبرویہ میں ان کو مفصل توجہات دیئے۔ پس بفضلہ تعالیٰ وہ مجمع البحار اور معدن انوار بن گئے تو فقیر نے انہیں تمام طریقوں کی اجازت دی تاکہ رشد و ہدایت کو جاری فرمائیں اور سالکین کے قلوب کو منور کریں۔ وہ میرے نائب ہیں ، ان کا ہاتھ گویا میرا ہاتھ ہے، خوشخبری ہے ان کے لئے جو ان کی پیروی کریں۔“

مندرجہ بالا عبارت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شیخ و مرید کے مابین کیا تعلق تھا۔ آپ کو خلافت مطلق عطا فرمادی گئی اور مقامات مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی بشارت عطا کی گئی۔

انہی دنوں حضرت قبلہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں افغانستان سے سوداگروں کا ایک قافلہ آیا ہوا تھا، جس کا تعلق پٹھانوں کے ناصر قبیلے کی میمن شاخ سے تھا۔ انہوں نے رخصت سے قبل حضرت قبلہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ ہمیں اپنا کوئی خلیفہ عنایت فرمادیں جو ہماری دینی و روحانی تعلیم و تربیت کا پوری سرگرمی سے اہتمام کرے اور اس کی صحبت کے انوار سے ہمیں دنیوی و اخروی سعادتیں حاصل ہوں۔

یہ درخواست سن کر حضرت قبلہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف توجہ مبذول فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ ان ناصروں کی رفاقت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منظور فرمائیں۔ آپ نے ارشاد مرشد کے آگے سر تسلیم خم فرمایا اور توجہ کے لئے درخواست گذار ہوئے۔ حضرت قبلہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے میمن ناصر کا ہاتھ حضرت حاجی صاحب قبلہ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ”حضرت حاجی صاحب تمہارے ساتھ ہیں گویا فقیر تمہارے ساتھ ہے۔ حضرت حاجی صاحب کا وجود اکسیر ہے جو تانبے کو سونا بناتا ہے۔ ان کو اچھی طرح سنبھال کر رکھنا اور ان کے وجود مسعود کو اپنے لئے اور اپنی ساری قوم کے لئے غنیمت اور نعمت عظمیٰ سمجھنا۔ جو بھی حاجی صاحب کی صحبت میں آئے گا محروم نہ رہے گا۔ زہے نصیب اس شخص کے جو ان کی صحبت اختیار کرے۔“

بعدہ حضرت قبلہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ آپ کو رخصت کرنے کے لئے اپنی خانقاہ سے دور تک باہر تشریف لائے اور حضرت حاجی صاحب و اہل قافلہ کے لئے دیر تک دعا فرماتے رہے۔

۱۲۵۱ ہجری کو یہ قافلہ حضرت قبلہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی دعاؤں اور توجہات کی زاد راہ لئے افغانستان کی طرف روانہ ہوگیا۔ جس جگہ یہ قافلہ پڑاؤ کرتا وہاں کے لوگ والہانہ حضرت حاجی صاحب کی طرف متوجہ ہوتے اور برکات و فیوضات حاصل کرتے۔ خود حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ”میں خود حیران تھا کہ برسوں میں نے مختلف ممالک و علاقوں کی سیاحت کی مگر کوئی میری طرف متوجہ نہ ہوا، مگر میرے مرشد کریم کی توجہات شریفہ و دعاؤں کی بدولت اب یہ حال ہے کہ لوگ ایک وارفتگی کے عالم میں میری طرف بڑھے چلے آرہے ہیں، یعنی دوست محمد فقیر سے پیر اور مرشد بن گیا۔“

جب یہ قافلہ افغانستان میں کڑی میمن پہنچا تو لوگوں نے والہانہ استقبال کیا۔ پٹھانوں کا یہ قبیلہ خانہ بدوش تھا اور ان کے خیموں کا مجموعہ بستی یا کڑی کہلاتا تھا۔ اس قبیلے کا یہ معمول تھا کہ وہ گرمیوں میں قندھار کے نواح اور سردیوں میں ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے و امان کے موضع چودھواں کے پاس خیمہ زن ہوتے تھے۔ جیسے ہی حضرت حاجی صاحب کا خیمہ استادہ ہوا تو قافلے والوں نے یہ سوچ کر کہ کہیں حضرت حاجی صاحب یہاں سے چلے نہ جائیں، اس خدشے کے پیش نظر اپنی قوم کی انتہائی پارسا لڑکی کی شادی حضرت حاجی صاحب سے کردی اور ساتھ ہی پانچ چھ شامیانے بھی بنادیئے۔ ایک نماز باجماعت کے لئے، دوسرا آپ کے گھر اور تیسرا آپ کے خلوت خانہ کے لئے اور دو شامیانے ذاکرین اور درویشانِ طالبانِ حق کے لئے تاکہ انہیں رہائش میں آسانی ہو۔

جب اس علاقہ میں دعوت و ارشاد کا کام نہایت وسیع ہوگیا تو قندھار کے مضافاتی علاقہ غنڈاں کے صاحب اثر افراد جو کہ آپ کے مریدین صادق تھے اور جن میں ملا عبدالحق اور حاجی محمد صدیق کے نام قابل ذکر ہیں نے ایک خانقاہ تعمیر کرنے کی اجازت طلب کی اور اجازت ملتے ہی لوڑگئی کے مقام پر چند کمروں پر مشتمل ایک عمارت کھڑی کردی گئی جو آج تک خانقاہ غنڈاں کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت حاجی صاحب نے ایک عرصہ تک یہاں قیام فرمایا اور مخلوق خدا آپ کے فیض سے سیراب ہوئی۔ ذکر الٰہی کے کئی چشمے یہاں سے جاری ہوئے۔ حضرت صاحب کے حلقۂ ارادت میں عوام الناس کے علاوہ خواص کا طبقہ بالخصوص علماء اور سجادہ نشین کافی تعداد میں داخل ہوئے۔

افغانستان قندھار کے علاقے میں سردی بہت زیادہ پڑتی ہے۔ چونکہ اہل اللہ ہمہ وقت مخلوق خدا کی خدمت پر کمربستہ ہوتے ہیں اور شدید سردیوں میں تکلیف بڑھ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس لئے جیسے ہی موسم سرما شروع ہوتا آپ افغانستان سے علاقہ دامان میں کڑی شادی زئی میمن قبیلوں کے ہمراہ تشریف لے آتے۔ آپ کے ورود مسعود سے علاقہ دامان میں نیکیوں کی بہار آجاتی۔ لوگ جوق در جوق آپ کی مشفقانہ راہنمائی کے طالب ہوتے۔ اس علاقہ کے تاجوخیل قبیلے کے لوگ آپ کی مسحور کن شخصیت سے متاثر ہوکر شروع میں ہی آپ کے حلقۂ بیعت میں داخل ہوگئے تھے اور فیضان الٰہی سے دلوں کی کھیتیوں کو سیرات کررہے تھے۔ باوجود اس کے آپ کا علاقہ دامان میں رونق افروز ہونا چند مقامی سرداروں کو پسند نہ تھا، مگر تاجوخیل قبیلہ کے خوف کی وجہ سے وہ کچھ کر نہ پاتے تھے۔ مگر ہر وقت اس فکر میں رہتے کہ کسی نہ کسی طرح یہ فقراء یہاں سے چلے جائیں۔ اتفاق دیکھئے کہ جب حضرت حاجی صاحب قبلہ وہاں رونق افروز تھے، انہی دنوں علاقے کا ہندو تحصیلدار وہاں دورے پر آیا تو مخالفین نے یکجا ہوکر اس کی چاپلوسی کی اور کہا کہ ایک فقیر نے یہاں اپنی حکومت قائم کرلی ہے، ان کے ساتھ ایک کثیر جماعت ہے، یہ سب ہمارے نالے کا پانی خراب کرتے ہیں۔ اگر آپ انہیں یہاں سے نکال دیں تو ہم آپ کے ممنون ہونگے۔ تحصیلدار نے کہا یہ کون سی بڑی بات ہے، میں ابھی جاتا ہوں اور انہیں یہاں سے بے دخل کرتا ہوں۔ وہ بڑی آن بان کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہوکر مخالفین کے ہمراہ حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں پہنچا اور نہایت متکبرانہ طریقے سے آپ کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں۔ حضرت حاجی صاحب نے نہایت نرمی سے ارشاد فرمایا شیخ صاحب! ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔

تحصیلدار اپنے لئے لفظ شیخ سن کر طیش میں آگیا۔ اس نے انتہائی درشت لہجے میں کہا کہ آپ کو یہاں سے جانا ہوگا۔ آپ نے بھی ارشاد فرمایا شیخ صاحب ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ دوبارہ شیخ کا لفظ سن کر اس کی ہندوانہ عصبیت عود کر آئی اور اس نے کہا کہ میں آپ کو زبردستی یہاں سے بے دخل کر دوں گا۔

تحصیلدار کے اس گستاخانہ رویہ نے درویشانہ جمال کو جلال میں بدل دیا اور حضرت حاجی صاحب نے نہایت جلال سے فرمایا ”شیخ صاحب کسی کی مجال نہیں جو فقیر کو یہاں سے ہٹاسکے“ اس کے ساتھ ہی ایک نگاہ پر جلال جو اس پر ڈالی تو وہ گھوڑے سے نیچے گر کر ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔ یہ دیکھ کر مخالفین بہت پریشان ہوئے اور اسے اٹھاکر ڈیرے پر لائے۔ جیسے ہی تحصیلدار کو ہوش آیا تو کہنے لگا کہ مجھے حضرت کے پاس لے چلو۔ چنانچہ اسے حضرت قبلہ کی بارگاہ میں لایا گیا۔ جیسے ہی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فورًا ہی آپ کے قدموں پر گرگیا اور اپنی گستاخی کی معافی مانگنے لگا۔ اس کے بعد آپ کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوگیا۔ اور یوں ایک درویش عارف باللہ کی زبان سے نکلے لفظ شیخ کی عملی تفسیر ظاہر ہوئی۔ مسلمان ہونے کے بعد اس نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور میری بیوی کے لئے بھی دعا فرمائیں کہ وہ حلقۂ اسلام میں داخل ہوجائے اور حضور کی دعا سے میری جائیداد اور ملازمت بھی محفوظ رہے۔ آپ کی توجہ عالیہ اور دعا کی برکت سے اس کی یہ سب خواہشیں پوری ہوئیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد اس نے عرض کیا کہ حضور مسلمان ہونے کے بعد میں اپنی قوم سے کٹ گیا ہوں اس لئے آپ میرے لئے کوئی پہچان مقرر فرمادیجئے۔ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا ”آج سے تمہارا نام فقیر عبداللہ رکھا جاتا ہے، اب تمہاری اولاد بھی فقیر کے نام اور لقب سے جانی پہچانی جائے گی۔“ آپ کی دعا کی برکت سے آج بھی اس کی اولاد فقیر کے لقب سے پہچانی جاتی ہے۔

اس واقعے کے بعد مخالفین بھی سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور ان میں سے بہت سے تائب ہوکر آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے، اور یوں پشتو اور پنجابی تہذیب کے اس سنگم پر اسلامی تعلیم و تہذیب کا مرکز وجود میں آگیا۔

علاقہ دامان کے شہر چودھواں کی بڑی شخصیتوں خان غلام نبی خان، قاضئ شہر مولوی فتح محمد صاحب اور کلاچی کے بڑے خان نورنگ گنڈہ پور کا ارادہ تھا کہ کلاچی میں آنحضور قبلہ کے لئے آپ خانقاہ بنائیں گے۔ مگر ”ایں سعادت بزور بازو نیست۔“ جس کے نصیب ازلی سعادت ہو یہ حصہ اس کو عطا ہوتا ہے۔ ان سہ صاحبان سے پہلے ہی ۱۲۶۶ھ میں خان میر عالم خان قوم تاجوخیل اور قصبہ دربن کے قاضی عبدالغفار اور قاضی عبدالرحیم موسیٰ زئی شریف میں ایک خانقاہ بنانا شروع کردی۔ اس وقت حضرت قبلہ حاجی صاحب افغانستان میں رونق افروز تھے۔ جیسے ہی موسم سرما شروع ہوا، حضرت حاجی صاحب نے موسیٰ زئی شریف کو رونق بخشی تو آپ کی آمد سے قبل ہی خانقاہ تیار ہوچکی تھی۔ جس کے ساتھ ایک فراخ مسجد اور گھوڑوں کے لئے اصطبل بھی تھا۔

سابقہ مضمون میں یہ بتا جاچکا ہے کہ ہندوستان پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ نے عرصہ حیات تنگ کردیا تھا اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر ایک کاری ضرب لگائی جارہی تھی۔

سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے بزرگوں کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ ہر پرآشوب دور میں طاغوتی قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہوئے۔ مقبوضہ ہندوستان میں جہاد اسلامی کا فتویٰ دینے والے، اس پر سرفہرست دستخط کرنے والے اور سب سے پہلے اس کی تصدیق کرنے والے حضرت شاہ احمد سعید دہلوی مجددی رحمۃ اللہ علیہ تھے جو حضرت حاجی صاحب کے مرشد و مربی تھے۔ اس تاریخی جہاد میں آپ کی مساعی جمیلہ ایک تاریخی حقیقت ہے لیکن خود غرض آور مطلب پرست مؤرخین نے تاریخی کتابوں میں نام تک نہیں لیا، اور یوں ایک تاریخی خیانت کے مرتکب ہوئے۔

۱۸۵۷ع بمطابق ۱۲۷۳ ہجری کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد حضرت قبلہ شاہ احمد سعید رحمۃ اللہ علیہ انگریزوں کی فہرست میں سرفہرست تھے۔ آپ نے راتوں رات خانقاہ مظہریہ دہلی کو خیرباد کہا۔ حرمین شریفین کی طرف ہجرت فرماتے ہوئے سب سے پہلے موسیٰ زئی شریف کا رخ کیا اور وہاں اپنے مرید صادق حاجی صاحب کو سلسلۂ عالیہ کا قائم مقام مقرر فرماکر حجاز مقدس کی راہ لی۔ یوں موسیٰ زئی کی اس خانقاہ کو پورے ہندوستان اور ملحقہ علاقوں میں ایک مرکزی مقام حاصل ہوگیا۔

حضرت حاجی صاحب نے اپنی صحبت کیمیا اثر سے ایسے بلند ہمت اولو العزم افراد کی ایک جماعت تیار کی جو صاحب علم و فضیلت بھی تھے تو پیکر اخلاص و عمل بھی، اور دعوت و اصلاح کے کام میں پرجوش اور سرگرم بھی۔ ان بلند کردار انسانوں نے اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر ماحول کو یکسر تبدیل کردیا اور سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کی اشاعت و ترویج میں بدل و جان کام کیا، جن کی تعداد مکتوبات دوستیہ کے مطابق ایک سو سے بھی زیادہ ہے۔

آپ کے ایک مخلص سید طیب شاہ نے عرض کیا حضور مجھے کھانا تھوڑا کھانے کا امر فرمائیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا ”یہ طریقۂ کم خوردنی ارباب ریاضت و مجاہدہ کا ہے، ہمارے طریقہ نقشبندیہ میں خوب پیٹ بھر کر کھاؤ اور اسے ذکر اسم ذات سے ہضم کرو۔ یہ گوشہ نشینی اور کم خوردنی طریقہ قادریہ چشتیہ سہروردیہ شریفہ میں ضروری ہیں۔ اس طریقہ نقشبندیہ میں شریعت کے مطابق عمل کرنا اور بدعات سے پرہیز اور اپنے مرشد سے رابطہ و محبت اور خدمت علی الدوام کرنی اولین شرط ہے۔“

ایک بار آپ کی مجلس سجی تھی اور شراب معرفت کے جام لنڈھائے جارہے تھے۔ آپ کے گوہر ہائے آبدار سے دلوں کی کھیتیاں شاداب ہورہی تھیں کہ اچانک آپ نے ارشاد فرمایا ”طریقت میں کتاب خوانی کی ضرورت نہیں۔ یہ محض فضل ربی جل شانہ ہے۔ کتاب خوانی سے تو محض لوگوں کے حالات اور مقامات سے واقفیت ہوسکتی ہے۔“

ایک مجلسِ معرفت میں آپ نے گوہر افشانی کرتے فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ”حصول نسبت اور فیض میں اصل بنیاد اپنے شیخ سے رابطہ پر ہے، ذکر اذکار اور نوافل وغیرہ اور دیگر عبادات حصول نسبت کے دو مضبوط ذریعے ہیں اور بس۔“

ایک بار حضرت افغانستان جاتے ہوئے ژوب کی سربلندی تک پہنچ گئے تو اترائی میں پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ ایک ساتھ کو پانی کی تلاش میں دوڑایا مگر وہ ناکام لوٹا۔ سب حیران تھے کہ اب کیا ہوگا اور خود حضرت قبلہ اٹھ کر ایک طرف چل دیئے۔ کچھ دور جاکر ہم نے عرض کیا کہ حضور یہ راستہ تو نہیں، فرمایا ہم پانی کے لئے جارہے ہیں۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ وادی میں زوردار سیلاب آگیا۔ ہمارا خیال تھا کہ بڑی مخلوق آباد ہوجائے گی، مگر دوسرے دن جب اونٹوں کے چرواہے اونٹ چراکر شام کو واپس آئے تو ان سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہاں تو پانی کا نام نشان بھی نہ تھا۔

خوشی و راحت مصائب و مشکلات اور صحت و تندرستی انسانی زندگی کا جزو لازم ہیں۔ جب حضرت قبلہ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک اڑسٹھ برس ہوئی تو آپ کی طبیعت مبارک ناساز رہنے لگی۔ ہر چند علاج معالجے کی سنت ادا کی جاتی رہی مگر صحیح معنوں میں افاقہ نہیں ہوپاتا تھا۔ حتیٰ کہ رمضان المبارک کا مہینہ آ پہنچا جس میں روزوں اور دیگر اوراد کے سبب کمزوری مزید بڑھ گئی۔ شوال میں مرض کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ ان ایام میں حضرت اقدس اکثر ابن یمین کی رباعی پڑھا کرتے تھے جس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔

”یہ نہ دیکھیں کہ ابن یمین کا دل پر خون ہوا۔ بلکہ یہ دیکھیں کہ وہ اس سرائے فانی سے کس حال میں جارہا ہے۔ قرآن مجید ہاتھ میں لئے ہوئے ایسے حال میں اجل کے پیادوں کے ساتھ خوش خوش ہنستا جارہا ہے اور آنکھیں یاد میں لگی ہوئی ہیں۔“

جب افاقہ ہوتا ہوا نظر نہ آیا تو آپ نے ایک وصیت نامہ تحریر فرمانے کا حکم صادر فرمایا جس میں آپ نے تین اہم امور بیان فرمائے۔ کھلے بندوں پوشیدہ ہر حالت میں زہد و تقویٰ اپنائیں اور دینی و دنیوی خوشی و الم میں ان سب امورات میں اتفاق و اتحاد کا رشتہ ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے، کیونکہ اختلاف تباہی کا سبب ہوتا ہے۔

وصیت نامہ میں وصیت کے مطابق آپ نے اپنے خلیفۂ اعظم حضرت مولانا محمد عثمان دامانی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا نائب منیب مقرر فرمایا اور خانقاہ شریف اور کتب خانہ و دیگر اسباب آپ کو ودیعت فرما دیئے۔ اور اپنے مقربین خلفاء کو جمع فرماکر سب سے حضرت مولانا محمد عثمان دامانی علیہ الرحمۃ کی نیابت کی تائید لی۔

۲۲ شوال المکرم کی رات آپ کے مرض میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا اور صبح تک مرض نے شدت اختیار کرلی۔ آخر وہ پرملال لمحے آ پہنچے جو ہر ذی روح کے لئے مقدر ہیں۔ ۲۳ شوال ۱۲۸۴ھ کی تاریخ کو رشد و ہدایت کا یہ نیر تاباں اپنے معبود حقیقی کی رحمت کے افق میں غروب ہوگیا۔ وصیت کے مطابق حضرت محمد عثمان دامانی علیہ الرحمۃ نے ہی دوسرے رفقاء کی مدد سے غسل دیا، کفن پہنایا اور نماز جنازہ پڑھائی۔ جب آپ کا جنازہ لے جایا جارہا تھا تو وصیت کے مطابق جنازے کے آگے عربی کی ایک رباعی بلند آواز سے پڑھی جارہی تھی، جس کا مطلب ہے میں رب العزت کی سخی ذات کی خدمت میں قلبِ سلیم اور عبادات کا توشہ لیکر نہیں جارہا بلکہ خالی ہاتھ جارہا ہوں، کیونکہ سخی کے پاس توشہ لیکر جانا بری بات ہے۔

چونکہ آپ کی کوئی نسبی اولاد نہیں تھی، لیکن روحانی اولاد لاکھوں کی تعداد میں تھی جنہوں نے پرملال اور پرسوز اور اشکبار آنکھوں اور سوگوار دلوں کے ساتھ اپنے مرشد و مربی و مزکی کو سپرد خاک کیا۔

آپ کا مزار پر انوار آج بھی موسیٰ زئی شریف میں تشنگان معرفت کے لئے وجہ تسکین و طمانیت ہے۔

آپ کی تصنیفات میں سوائے آپ کے مکتوبات کے اور کسی تحریر کا علم نہیں ہوسکا، جو جناب ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب نے شائع کرائے ہیں۔
Back to top Go down
http://friends.canada-forum.net/index.htm
 
حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری
Back to top 
Page 1 of 1
 Similar topics
-
» تسبيحات حضرت فاطمہ رضي اللہ عنھا
» توہین رسالت اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ
» ہدیہ عقیدت بحضور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
» حضرت مالک بن دینار رحمتہ اللہ علیہ کی توبہ کا واقعہ
» مراد رسول ﷺ,شہید محراب حضرت سید نا فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ

Permissions in this forum:You cannot reply to topics in this forum
 :: اسلام :: تاریخ اسلام-
Jump to: