Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.



 
HomeHome  PortalPortal  GalleryGallery  Latest imagesLatest images  SearchSearch  RegisterRegister  Log inLog in  

 

 یاد یں

Go down 
AuthorMessage
ھارون رشید
ماہر
ماہر
ھارون رشید


Posts : 1369
Join date : 28.11.2010
Age : 50
Location : اوکاڑہ شریف

یاد                             یں Empty
PostSubject: یاد یں   یاد                             یں EmptySun Dec 12, 2010 5:46 am

/دسمبر ۱۹۷۱ء کی ذلت آمیزشکست اور پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے والے منظر کو بار بار بھلانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
لیکن ایک یادداشت ایسی ہے کہ میں اس کو دنیا کی تمام دولت کے بدلے بھی بھولنا پسند نہیں کروں گا اور یہ یاد داشت اسکول کے طالب علمی کا زمانہ ہے۔ یہ ایسی خوبصورت یادیں ہیں جو ابھی تازہ ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کل کی بات ہے۔ جب کبھی میں تنہا ہوتا ہوں میں اپنی کرسی پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے تقریباً ۶۵/سال پیشتر بھوپال کے اسکولوں میں پہنچ جاتا ہوں۔ میرے والد برٹش انڈیا میں وسطی صوبہ جات یعنی سی پی میں ہیڈ ماسٹر اور سپریٹنڈنٹ آف اسکولز کے عہدے سے ریٹائر ہوکر بھوپال میں واپس آ کر بس گئے تھے یہ ناگپور یونیورسٹی سے گریجویٹ تھے اور انگریزی اور ریاضی میں ماہر تھے پورا شہر ان کی بے حد عزت کرتا تھا۔
قبل اس کے کہ میں اپنی تعلیم کے بارے میں عرض کروں چند باتیں بھوپال اسٹیٹ کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ یہ ہندوستان کے بالکل قلب میں ہے تقسیم سے پیشتر اس کی آبادی تقریباً سات لاکھ نفوس پر مشتمل تھی اس ریاست کا رقبہ تقریباً سات ہزار مربع کلو میٹر تھا۔ اس کو ہندوستان کا سوئٹزرلینڈ کہنا مبالغہ آمیزی نہ ہو گا اس میں گھنے جنگلات تھے، دریا تھے، اونچے اونچے پہاڑ تھے اور باکثرت جنگلی جانور مثلاً شیر، تیندوے، ریچھ، جنگلی کتے، سور، مگرمچھ، ہرن، چکارے، سانبھر، نیل گائے، طاؤس اور لاتعداد قسم کے پرندے تھے۔ بھوپال شہر دہلی، بمبئی اور امرتسر، کلکتہ ریلوے لائن پر ہونے کی وجہ سے اہم جنکشن تھا۔ بھوپال شہر میں ساتھ جھیلیں تھیں جن میں سے ایک غیر منقسم ہندوستان کا سب سے بڑا تالاب کہلاتی ہے۔ ان جھیلوں اور تالابوں میں کثرت سے مچھلیاں اور جھینگے تھے اور ہمارا گھر بڑے تالاب سے بمشکل ایک کلومیٹر پر تھا۔ بھوپال ایک پہاڑی سرزمین پر واقع تھا شہر میں لاتعداد گھاٹیاں تھیں اور سائیکل چلانے والوں کو اکثر اتر کر پیدل چل کر کچھ فاصلے طے کرنا پڑتے تھے۔ میرے بچپن کے زمانے میں شہر کے وسط سے بمشکل پانچ کلو میٹر دور رات کو شیر، تیندوے، ریچھ مل جاتے تھے۔ بھوپال میں لاتعداد نہایت خوبصورت مساجد تھیں اور تقریباً ہر دو سو گز پر ایک مسجد موجود تھی۔ بھوپال میں لاتعداد حُفّاظ تھے اور ماہ رمضان میں یہ دور دراز علاقوں میں جا کر تراویح پڑھایا کرتے تھے۔
پوری آبادی کا بمشکل پچیس، تیس فیصد حصہ مسلمانوں پر مبنی تھا اور یہ پٹھان تھے۔ باقی آبادی ہندوؤں، اور پرانے مقامی باشندوں گونڈ اور بھیل پر مشتمل تھی۔ بھوپال و سیہوردوخاص شہروں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، فوج اور پولیس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر تجارت اور سرکاری ملازمتوں میں ہندو، مسلمان ملے جلے کام کرتے تھے۔ وزیراعظم عموماً ہندو ہوتا تھا اور یہ بیگمات بھوپال کی دوربینی کی عکاسی کرتا تھا۔ بھوپال میں ہمیشہ امن و امان رہتا تھا۔ ریاست خاصی کھاتی پیتی ریاست تھی،نہ غربت تھی، نہ بیروزگاری تھی اور فقیروں کا تو نام و نشان ہی نہیں تھا۔ مسلمان زیادہ تر پٹھان تھے اور ان کا تعلق صوبہ سرحد کے علاقے تیراہ سے تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد مغلیہ حکومت بکھر گئی تو بھوپال شہر سے بیس کلو میٹر دور رائسین کے قلعہ کے سربراہ سردار دوست محمد خان نے بھی خودمختاری اختیار کر لی اور چند سال بعد بھوپال کی رانی کملاپتی نے شہر بھوپال ان کو بطور شکریہ حوالہ کر دیا کیونکہ دوست محمد خان نے اس کے شوہر کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچا دیا تھا۔ بھوپال میں ہم یا تو پٹھانوں سے واقف تھے یا کالے کپڑے پہنے کابلی سودخوروں سے جو ہمیشہ لوگوں کو بہکا کر رقم سود پر دینے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ پاکستان آکر مجھے نت نئے ناموں سے واقفیت ہوئی۔ والدہ کی طرف سے ہمارا تعلق تراہ کے پٹھانوں سے ہے اور والد کی طرف سے غور سے آئے اُزبک نسل سے تھا جو سلطان شہاب الدین کے ساتھ آئے تھے اور پرتھوی راج کو شکست دی تھی ۔
اب میں چند باتیں ان لوگوں سے مخاطب ہو کر کہنا چاہتا ہوں جو بلا سوچے سمجھے اور تمام خطرناک نتائج سے غافل ہوکر بچیوں کے اسکول اور کالج مسمار کر رہے ہیں۔ میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ سردار دوست محمد خان کی رحلت کے بعد یعنی ۱۷۴۰ء کے بعد پانچ خواتین نے بھوپال پر حکمرانی کی۔ ماجی ممولہ جو کہ نواب یار محمد خان کی بیوی تھی جو سردار دوست محمد خان کے بعد نواب بنے تھے۔بہت ذہین اور قابل خاتون تھیں اور اپنے شوہر کی وفات کے بعد انہوں نے کئی برس اپنی کم سن بیٹی قدسیہ بیگم کے سربراہ کے طور پر حکومت کے انتظامات خوش اسلوبی سے سر انجام دیئے۔ اس کے بعد سکندر بیگم، شاجہان بیگم اور سلطان جہان بیگم بھوپال کی حکمران رہیں۔ ان تعلیم یافتہ اور دور بین قابل حکمرانوں نے بھوپال کو ایک مثالی فلاحی اور ترقی یافتہ ریاست بنادیا۔ یہ فراوانی سے فارسی، اردو بولتی تھیں اور انگریزی بھی سیکھ لی تھی۔ یہ پردہ نہیں کرتی تھیں اور روز عوام کے لیے دربار لگاتی تھیں۔ آپ کو علم ہے کہ حج اور عمرہ کے دوران عورتوں کو منہ چھپانا سختی سے منع ہے تو پھر یہ پابندی ہمارے بعض لوگ کیوں خواتین پر جبراً نافذ کرنا چاہتے ہیں جو نہ اللہ کا اورنہ ہی اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے۔ انہوں نے ریاست بھوپال میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے لاتعداد علیحدہ علیحدہ مدارس قائم کئے، تعلیم مفت تھی اور کتابیں مفت دی جاتی تھیں۔ نواب سلطان جہان بیگم نے سر سید احمد خان کو کثیر رقم برائے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے دی اور وہ اس یونیورسٹی کی پہلی چانسلر تھیں۔ بعد میں ان کے بیٹے نواب حمید اللہ خان بھی اس یونیورسٹی کے چانسلر بنے۔ یہ اس یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے۔ بھوپال پر پڑوس کے جنگجو مرہٹوں نے کئی سخت حملے کئے اور ایک بار تین سال محاصرہ کئے رکھا مگر ان بیگمات نے خود فوج کی سربراہی کی، بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا اور ان کو شکست دے کر بھگا دیا۔
آپ ضرور غور کریں کہ اگر یہ پٹھان بیگمات تعلیم یافتہ نہ ہوتیں اور تعلیم کو فروغ نہ دیا ہوتا تو میں آج ایک سائنٹسٹ و انجینئر کے بجائے یا تو موچی ہوتا یا پتھر توڑنے والا یا ایک خرکار۔ ہماری والدہ نے ہم بہن بھائیوں کو بچپن میں تعلیم دی، اسپتال لے جا کر علاج کرایا، میری بیوی نے میری دونوں بچیوں کو ہوم ورک کروانے میں رہنمائی کی اور اب میری دونوں بیٹیاں ہماری نواسیوں کو روز پڑھاتی ہیں۔ اگر آپ لڑکیوں کو تعلیم نہیں دیں گے تو آدھی قوم جہالت کا شکار ہو جائے گی اور آپ ان کو اچھی بیوی اور اچھی ماں بننے سے روک دیں گے۔ آپ ان کو والد و شوہر کی رحلت کے حادثہ سے نمٹنے کے قابل نہ ہونے دیں گے، آپ ان کو اسلام، صحت، صحت مند خوراک کے بارے میں علم حاصل کرنے سے محروم کر دیں گے۔ آپ ان کو معاشرے کا ایک مفید شہری بننے سے محروم کر دیں گے اور آپ کو اس نقصان کا کبھی اندازہ نہ ہوگا۔ ماں کی محبت و مدد کے بغیر بہت سے لڑکے اور لڑکیاں اسکول چھوڑ دیتے ہیں اور جہالت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہم کس طرح پھر اچھے سمجھدار مسلمان قوم بن سکتے ہیں۔ آپ لڑکیوں کو تعلیم سے نہیں روک رہے بلکہ آپ پوری قوم کو جہالت کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں۔ کیا آپ کو علم نہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تعلیم یافتہ اور کامیاب تاجر تھیں اور آپ نے خود ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح کرنے کی خواہش کر کے شادی کی تھی۔
اب کچھ آج کل کی تعلیم کے بارے میں۔ مجھے علم ہے کہ ایک کثیر تعداد مضامین، رپورٹیں، مشوروں، مختلف ماہرین اور کمیٹیوں کے تیار کردہ اس موضوع پر موجود ہیں۔ ان میں ہمارے اسکولوں میں طریقہ تعلیم پر بحث کی گئی ہے کیونکہ ابھی تک نتیجہ صفر رہا ہے اس لئے میں نے سوچا کہ شاید میری معروضات صاحب اقتدار لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیں اور وہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کر کے عمل کرنا شروع کردیں۔ میں یہاں نہ تو اعداد و شمار اور نہ ہی طریقہ تعلیم پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں بلکہ اس طریقہ تعلیم کے بارے میں کچھ عرض کروں گا کہ جس نے عام سرکاری مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے ہم جیسے طلبا کو اچھے کام کرنے کے قابل بنایا تھا۔ سب سے پہلے تو یہ لازمی ہے کہ پاکستان کے تمام علاقوں میں اور تمام اسکولوں میں یکساں نظام تعلیم برائے مدارس نافذ کیا جائے اور اپنے اپنے علاقوں کی مادری زبانوں کو سلیبس کا لازمی حصہ قرار دیا جائے۔ قدرتی بات اور ضرورت ہے کہ ملک کی یکجہتی کی خاطر اردو زبان کو لازمی قرار دیا جائے۔ اپنے دور اسکول کا نظام بتانا چاہتا ہوں۔ شروع کے دو سالوں میں ہمیں بنیادی اردو، ریاضی، قرآن، دینیات اور لکھنا سکھایا گیا تھا۔ تیسری جماعت میں سنجیدگی سے تعلیم شروع ہوئی اس میں اردو، ریاضی، اسلامیات، انگریزی وغیرہ کی تعلیم تھی۔ جوں جوں ہم کلاس میں آگے بڑھتے گئے ان مضامین کی تعلیم کی وسعت میں اضافہ ہوتا گیا اور ساتھ میں تاریخ ہند، تاریخ انگلستان، برصغیر کا جغرافیہ، یورپین ہسٹری، انگریزی گرامر، کمپوزیشن اور اچھی انگریزی جیسے مضامین شامل ہوگئے۔ مڈل اسکول میں ہم فارسی اور عربی میں سے ایک مضمون لے سکتے تھے، ساتھ میں الجبراء، جیومیٹری، ریاضی بھی شامل ہوگئے۔ نویں اور دسویں جماعت میں ہم فزکس، کیمسٹری یا باٹنی، زولوجی لے سکتے تھے ساتھ میں اناٹامی و فزیالوجی لازمی مضامین تھے۔ اس وقت ہم انگریزی میں شیکسپیئر، یٹنی سن، ورڈز ورتھ، ٹیگور، برٹرینڈرسل، بائرن وغیرہ کا کلام پڑھ رہے تھے نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے اردو اور انگریزی میں اچھی مہارت حاصل کرلی اور دنیا کے جغرافیہ اور ہندوستان، انگلستان، یورپین تاریخ سے پوری طرح بہرہ ور تھے۔ مجھے بعد میں یہ علم ہوا کہ ہمارا میٹرک میں حاصل کیا ہوا انگریزی اور اردو کا علم پاکستان کے کالجوں کی تعلیم سے بہتر تھا سب سے بہتر اور قابل فخر بات جو تھی وہ یہ تھی کہ ہم اپنے مذہب ، تہذیب و تمدن سے پوری طرح آشنا تھے۔ اردو میں ہم نے اپنے تمام مشہور شعراء مثلاً انشاء، مومن، سودا، غالب، ذوق، میر انیس، درد، داغ، اقبال، جوش و جگر کی نہ صرف سوانح حیات پڑھی تھیں بلکہ ان کا چیدہ چیدہ کلام بھی پڑھ لیا تھا۔ یہ اس وقت کی نشونما اور تعلیم کا ہی اثر ہے کہ میں آج بھی اپنے ادب کی خوبصورتی، چاشنی سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہوں، سائنٹسٹ اور انجینئر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ خشک و تنگ مزاج ہوں، میں مغربی ادب اور کچھ اچھی موسیقی کو بھی پسند کرتا ہوں مگر اپنا قیمتی ورثہ ہرگز بھولنے کو تیار نہیں ہوں۔ اردو اور فارسی زبان میں جو گہرائی و چاشنی ہے وہ سوائے عربی زبان کے کسی اور زبان میں نہیں ہے۔ آپ مہدی حسن، غلام علی، منّی بیگم، اقبال بانو، ملکہ پکھراج، عابدہ پروین اور نصرت فتح علی وغیرہ کی زبانی غزلیں و صوفیانہ کلام سن کے دیکھیں۔ بھوپال میں ہائی اسکول امتحانات اجمیر (راجپوتانہ) بورڈ کے تحت ہوتے تھے جو کہ ہندوستان کے مشکل ترین بورڈز میں سے ایک تھا اور بیگمات بھوپال کا مقصد ایک غیرجانبدارانہ اعلیٰ بورڈ کے زیر نگرانی امتحانات کرانا تھے۔ میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ اس سے ملتا جلتا نظام پاکستان میں کیوں اچھے نتائج نہیں دے گا۔ ہم عام سرکاری مدارس میں تعلیم حاصل کرکے جو مفت تھی اور اس کے باوجود جب میٹرک پاس کرکے کالج میں گئے تو مجھ میں ان لڑکوں کے مقابلہ میں جو انگریزی زبان میں پڑھائے جانے والوں اسکولوں سے آئے تھے قطعی کسی قسم کا احساس کمتری نہ تھا اور بھوپال کے لاتعداد تعلیم یافتہ لوگوں کی کارکردگی اس نظام کی کامیابی کی کھلی مثال ہے۔ اسی قسم کا نظام چند معمولی تبدیلیوں یعنی کمپیوٹر کی تعلیم شامل کرکے، آج بھی اُتنے ہی اچھے نتائج دے گا۔ کسی بھی تعلیم کے نظام کے اچھا ہونے، قابل قبول ہونے اور شہرت حاصل کرنے کے لیے ایمانداری، نظم اور یکسوئی اساتذہ اور طالب علموں کے کردار کا لازمی جز ہونا ضروری ہے۔ ہم آج کل سوات و قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کے اسکولوں کے مسمار کئے جانے پر بہت لعن طعن کررہے ہیں (جو یقیناً قابل نفرت، قابل احتجاج اور ناقابل معافی عمل ہے) مگر دوسری جانب ہم پنجاب، سندھ، بلوچستان میں ہزاروں ویران، غیر زیراستعمال اسکولوں کے بارے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جہاں امن ہے، جہاں آپ کی حکمرانی اور قانون ہے پہلے وہاں تو نظام ٹھیک کریں قبل اس کے کہ دوسری طرف انگلی اٹھائیں۔ ہزاروں سرکاری اسکولوں کی حالت شرمناک ہے۔ اگر یہ کام نہ کیا گیا تو چند سالوں میں پاکستان میں ایک چھوٹا سا طبقہ تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوگا اور باقی تمام قوم جاہلوں، غیر تعلیم یافتہ اور نا اہل عوام پر مشتمل ہوکے رہ جائے گی۔ میں جو بات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جبکہ یونیورسٹی سطح پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں اپنی زبان، تہذیب و تمدن کو اسکول کی تعلیم کی سطح پر بہت اہمیت دینے کی ضرورت ہے، جب تک آپ کو اپنی تاریخ، تہذیب و تمدن، ادب سے واقفیت حاصل نہیں ہوگی اور اس پر فخر نہ کریں گے آپ کو دوسروں کے مقابلہ میں ہمیشہ احساس کمتری کا احساس رہے گا اور جب کوّا ہنس کی چال چلتا ہے تو نہ ہی وہ کوّا رہتا ہے اور نہ ہی ہنس بن جاتا ہے اسی وجہ سے وزارت تعلیم اور حکومت پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسکول کی تعلیم پورے ملک کے لیے نہ صرف یکساں کردے بلکہ اس میں ہماری، تہذیب و تمدن سے متعلق تعلیم ایک لازمی حصہ ہونا چاہئے۔ انگریزی زبان کے اسکولوں میں بھی اردو کی چند سالہ تعلیم ملک کی یکجہتی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ یہ موضوع اتنا اہم ہے کہ انشاء اللہ اس پر مزید طبع آزمائی کروں گا۔
(روزنامہ جنگ راولپنڈی، ۲۵/فروری ۲۰۰۹ء)
Back to top Go down
http://friends.canada-forum.net/index.htm
 
یاد یں
Back to top 
Page 1 of 1

Permissions in this forum:You cannot reply to topics in this forum
 :: اردو ادب اور شاعری :: اردو نثر :: ادبی نثر پارے-
Jump to: