میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت ( قریبی رشتہ دار )۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : ’’بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے،
اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم رحمۃ اللہ نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم رحمھما اللہ ، کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4576،
والنسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 45، 130، الحديث رقم : 8148، 8464،
والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 166، الحديث رقم : 4969.
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ غدیر
حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم برائی اور اپنے برے کاموں سے بچنے کے لئے اس کی پناہ چاہتے ہیں۔ وہ اللہ جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے ۔اور جس نے بھی گمراہی کی طرف ہدایت کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔
ہاں اے لوگو!وہ وقت قریب ہے کہ میں دعوت حق کو لبیک کہوں اور تمھارے درمیان سے چلا جاؤں تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔
اس کے بعد فرمایا کہ : میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟کیا میں نے تم سے متعلق پنی ذمہ داری کو پوراکردیا ہے ؟یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کی اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت کوششیں کیںاوراپنی ذمہ داری کو پوراکیا اللہ آپ کو اس کا اچھا اجر دے ۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کامعبود ایک ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے اور جنت و جہنم وآخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے ؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔،،
اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو ۔
اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے کیا مراد ہے؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ،اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ہیں،اللہ نے مجھے خبردی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے ۔
ہاں اے لوگوں! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا ،اور دونوں کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہ کرنا ،ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔
اس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی سب کو نظر آنے لگی،علی کرم اللہ وجہہ سے سب لوگوں کو متعارف کرایا ۔
اس کے بعد فرمایا: ” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہ حیث دار “
جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ،[4] اے اللہ اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر جدھرعلی مڑیں[5]
6 عَنْ زِرٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِيْ فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَ بَرَہَ النَّسْمَاَ اِنَّہُ لَعَھْدُ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اِلَيَّ اَنْ لَا يُحِبَّنِيْ اِلاَّ مُؤْمِنٌ وَّ لَا يُبْغِضَنِيْ اِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاہُ مُسْلِمٌ.
’’ حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا، حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ (علی رض) سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ (علی رض) سے بغض رکھے گا۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘
اعلان ہو رہا ہے خدا کے سفیر کا
سایہ رھے سروں پہ جناب امیر کا
چھوٹے نہ حشر تک کبھی دامان اہلبیت
پیغام ہے یہ دوستو خم غدیر کا
( صفدر ہمدانی )
7 رسول اور علی ایک ہی درخت ہے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمام لوگ جدا جدا درختوں سے ہیں مگر میں اور علی ایک ہی درخت سے ہیں۔
(معجم الاوسط للطبرانی، 5 : 89، ح : 4162)
8 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
علی مع القرآن والقرآن مع علي لن يتفر قاحتي ير دا علي الحوض
علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں (اس طرح جڑے رہیں گے اور) جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر مل کر میرے پاس آئیں گے۔
(ايضاً، 124)
یہ کہہ کر بات ختم کر دی علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ، قرآن اللہ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا جاتا ہے اوپر ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات سے علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو جدا نہیں کرتے۔ یہاں قرآن سے علی کے تعلق کی بھی وضاحت فرمائی کہ قرآن و علی اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ روز جزا بھی یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے گا اور علی اور قرآن اسی حالت میں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔
اور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے ماں باپ سے محبت کی وہ قیامت کے روز میرے ساتھ میری قربت کے درجہ میں ہو گا۔
( جامع الترمذي، 5 : 642، ح : 3733 )
9 جلال نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت گفتگو
حضرت ام سلمہ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت غضب میں ہوتے تھے تو کسی میں یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلام کرے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے۔
(2) المستدرک للحاکم، 3 : 130 )
10 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی قوت فیصلہ دعائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثمر
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے بھیج تو رہے ہیں لیکن میں نوجوان ہوں میں ان لوگوں کے درمیان فیصلے کیونکر کروں گا؟ میں جانتا ہی نہیں ہوں کہ قضا کیا ہے؟ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پر مارا پھر فرمایا اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا کر اور اس کی زبان کو استقامت عطا فرما، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پیدا فرمایا مجھے دو آدمیوں کے مابین فیصلے کرتے وقت کوئی شکایت نہیں ہوئی۔
(المستدرک، 3 : 135)
یہی وجہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بصیرت دانائی اور قوت فیصلہ ضرب مثل بن گئی۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عہد خلافت راشدہ تک تمام دقیق علمی، فقہی اور روحانی مسائل کے لئے لوگ آپ سے ہی رجوع کرتے تھے۔ خود خلفائے رسول سیدنا صدیق اکبر، فاروق اعظم اور سیدنا عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کی رائے کو ہمیشہ فوقیت دیتے تھے اور آپ نے ان تینوں خلفاء کے دور میں مفتی اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اسی دعا کی تاثیر تھی کہ آپ فہم فراست علم و حکمت اور فکر و تدبر کی ان بلندیو ں پر فائز ہوئے جو انبیائے کے علاوہ کسی شخص کی استطاعت میں ممکن نہی
11 مولا علی شوہر بتول
عن عبداللہ قال فی روایہ طویلہ و منھا وجدت فی کتاب ابی بخط یدہ فی ھذا الہدیث قال اما ترضین ان زوجتک اقدم امتی سلما واکثرھم علما واعطمھم حلما۔
اخرجہ احمد فی المسند والطبرانی فی المعجم الکبیر 229/20وحسام الدین ہندی فی کنز العمال الحدیث الرقم ٤٢٩٢٣،٤٧٢٤والسیوطی فی جمع الجوامع الحدیث رقم ٣٧٢٤،٤٧٢٤۔
حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ علیہا السلام سے فرمایا کیا تو راضی نہیں کہ میں نے تیرا نکاح امت میں سب سے پہلے اسلام لانے والے سب سے زیادہ علم والے اور سب سے زیادہ برد بار شخص سے کیا ہے۔
12 عن عبداللہ بن عکیم قال :قال رسول اللہ ان اللہ تعالی اوحی الی فی علی ثلاثہ اشیاءلیلہ اسری بی انہ سید المومنین و امام المتقین وقائد الغر (المحجلین ۔رواہ الطبرانی۔)
(اخرجہ الطبرانی فی المعجم الصغیر 88/2 )
حضرت عبداللہ بن عکیم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکریم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے شب معراج وحی کے ذریعے مجھے علی کی تین صفات کی خبر دی یہ کہ وہ تمام مومنین کے سردار ہیں ، متقین کے امام ہیں ، اور (قیامت کے روز) نورانی چہرے والوں کے قائد ہوں گے ۔
اس حدیث کو امام طبرانی نے اپنی المعجم الصغیر میں بیان کیا ہے۔
عن ابن عباس قال : ما نزل فی احد من کتاب اللہ تعالی ما نزل فی علی رواہ ابن عساکر فی تاریخہ۔
اخرجہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق الکبیر 363/42والسےوطی فی تاریخ الخلفاء:٢٣١
13 حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک کی جتنی آیات حضرت علی کے حق میں نازل ہوئیں کسی اور کے حق میں نازل نہیں ہوئیں اس حدیث کو امام ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں روایت کیا ہے ۔
14 قبول اسلام میں اول اور نماز پڑھنے میں اول
عن ابی حمزۃ رجل من الانصار قال سمعت زید بن ارقم یقول اول من اسلم علی ـ رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث حسن صحیح
ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی ایمان لائے اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ـ
15 اخرجہ الترمذی فی الجامع الصحیح ابواب المناقب بابا مناقب علی الحدیث رقم 3735 والطبرانی فی العجم الکبیر الحدیث رقم 12151 والھیثمی فی مجمع الزوائد
فی روایۃ عنہ اول من اسلم مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی رواہ احمد ـ
حضرت زید بن ارقم سے ہی مروی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی ہیں اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے
ـ
اخرجہ احمد بن حنبل فی المسند والحاکم فی المستدرک الحدیث الرقم 4663 وابن ابی شیبہ فی المصنف الحدیث رقم 32106 والطبرانی فی المعجم الکبیر الحدیث رقم 1102
16 لوگوں میں اللہ اور اس کے رسول کے سب سے زیادہ محبوب
عن انس بن مالک قال : کان عند النبی صلی اللہ علیہ وسلم طیر فقال اللھم ائتنی باحب خلقک الیک یاکل معی ھذا الطےر فجاء علی فاکل معہ ـ رواہ الترمذی
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی یا اللہ اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ گوشت تناول کیا اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے
اخرجہ الترمذی فی الجامع الصحیح ابوباب المناقب باب مناقب علی بن ابی طالب الحدیث رقم 3721 و الطبرانی فی المعجم الاوسط الحدیث رقم 9372 وابن حیان فی الطبقات المہدثین باصبھان
مولا کہیں کہ امام یا مشکل کشا کہیں
یا پھر نصیریوں کی طرح یا خدا کہیں
خیبر شکن علی ولی عاشق رسول
پروردگار اور بتا اور کیا کہیں
( صفدر ہمدانی )
17 حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ تھیں اور مردوں میں سے سب سے زیادہ محبوب حضرت علی تھے اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے الحدیث الرقم 3874
18 حضرت حسن بن علی نے حضرت علی کی شہادت کے موقع پر خطاب فرمایا اے اہل کوفہ یا اہل عراق تحقیق تم میں ایک شخصیت تھی جو آج رات قتل کر دیئے گئے یا آج وفات پا جائیں گے۔ نہ کوئی پہلے علم میں ان سے سبقت لے سکا اور نہ بعد میں آنے والے ان کو پا سکیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ کو کسی سریہ میں بھیجتے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ان کے دائیں اور حضرت میکائیل علیہ السلام ان کے بائیں طرف ہوتے، پس آپ ہمیشہ فتح مند ہوکر واپس لوٹتے۔
(مصنف ابن ابي شيبہ، 12 : 60)
19 حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا بے شک جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار آدمیوں میں میری ذات اور آپ اور حسن و حسین ہوں گے اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے ہو گی اور ہمارے پیروکار ہمارے دائیں اور بائیں جانب ہوں گے۔
(المعجم الکبير، 3 : 119، ح : 950 )
20 محبت علی میں افراط و تفریط کرنے والے گمراہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان کم کی اور نصاریٰ نے بڑھائی اور گمراہی و ہلاکت کے حقدار ٹھہرے اسی طرح میری وجہ سے بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے۔
ایک وہ محبت کرنے والا جو مجھے بڑھائے اور ایسی چیز منسوب کرے جو مجھ میں نہیں اور دوسرا وہ بغض رکھنے والا شخص جو میری شان کو کم کرے۔
1. مسند احمد بن حنبل، 1 : 160
2. المستدرک، 3 : 123
3. مسند ابي لعلي، 1 : 407
4. مجمع الزوائد، 9 : 133
21 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی علمی شخصیت
پیغمبر عظیم الشان اسلام کا ارشاد گرامی ھے کہ ”میں علم کا شھر ھوں اور علی اس کا دروازہ“ ، جن افراد کو شھر علم تک پہنچنا ھے ان کو دو دفعہ علی (ع) کا محتاج ھونا ضروری ھے ایک دفعہ جاتے ھوئے اور دوسری مرتبہ واپس آتے ھوئے، امام علیہ السلام نہج البلاغہ میں اپنی علمی شخصیت کو یوں بیان کرتے ھیں:
فَاٴسْاٴلُوْنِي قَبْلَ اٴنْ تَفْقِدُوْنِي فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِیَدِہِ لَاتَسْاٴلُوْنِي عَنْ شَيٍ فِیْمَا بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ السَّاعَہ وَ لَا عَنْ فِیہ تَہْدِي مِاَئہ وَ تُضِلُّ مِاَئہ الاَّ اٴَنْبَاتُکُمْ بِنَاعِقَہَا وَ قَائِدَہَا وَ سَائِقِہَا“[8]
”مجھ سے بوچھ لو قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان نہ رھوں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ھے، ممکن نھیں ھے کہ تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمھیں جواب نہ دے سکوں، میں آج سے قیامت تک کے واقعات کی خبر دے سکتا ھوں، ایک گروہ جو سو بندوں کو ھدایت کرتا ہ ے یا سو بندوں کو گمراہ کرتا ھے وہ بھی بتا سکتا ھوں، اُن کے ھانکنے والے ان کے رہبروں اور ان کے سربراھوں کے بارے میں مطلع کرسکتاھوں“۔
یہ کلمات امام علی کرم اللہ وجہہ کے علم کی ایک جھلک ھے، اور شاھد ھے کہ کائنات میں آپ جیسا عالم نہ تھا نہ ھوگا، اور یہ آپ کی اولویت پر واضح دلیل ھے۔
بعدِ رسول حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمات
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے زندگی بھر پیغمبر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ دیا تھا ۔وہ بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کے جسد اطہر مبارک کو کس طرح چھوڑتے , چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تجہیز وتکفین اور غسل وکفن کاتمام کام حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی کے ہاتھوں ہوا اورقبر میں آپ ہی نے رسول کو اتارا۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی رحلت کے وقت آپ کی عمر33 سال کی تھی اگر چہ آپ تمام فضائل دینی میں سے سب سے بڑھ کر تھے اور تمام اصحاب کے درمیان ممتاز تھے ۔اس کے باوجود خود خاموشی کے ساتھ اسلام کی روحانی اور علمی خدمت میں مصروف رہے . قرآن کو ترتیب ُ نزول کے مطابق ناسخ و منسوخ اور محکم اور متشابہ کی تشریح کے ساتھ مرتب کیا .
مسلمانوں کے علمی طبقے میں تصنیف وتالیف کااور علمی تحقیق کاذوق پیدا کیااور خود بھی تفسیر اور کلام اور فقہ واحکام کے بارے میں ایک مفید علمی ذخیرہ فراہم کیا .
آپ نے بہت سے ایسے شاگرد تیار کئے جو مسلمانوں کی آئندہ علمی زندگی کیلئے معمار کاکام انجام دے سکیں , زبان عربی کی حفاظت کیلئے علم نحوکی داغ بیل ڈالی اور فن صرف اور معانی بیان کے اصول کو بھی بیان کیا اس طرح یہ سبق دیا کہ اگر ہوائے زمانہ مخالف بھی ہوا اور اقتدار نہ بھی تسلیم کیا جائے تو انسان کو گوشہ نشینی اور کسمپرسی میں بھی اپنے فرائض کو فراموش نہ کرنا چاہیے .
ذاتی اعزاز اور منصب کی خاطر مفادملّی کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو انسان اپنی ملّت , قوم اور مذہب کی خدمت ہر حال میں کرتا رہے .
جہاد سمیت اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے کسی کام کے کرنے میں آپ کو انکار نہ تھا۔ یہ کام مختلف طرح کے تھے رسول کی طرف سے عہد ناموں کا لکھنائ خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمہ تھا اور لکھے ہوئے اجزائے قرآن کے امانتدار بھی آپ تھے-
اس کے علاوہ یمن کی جانب تبلیغ اسلام کے ليے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو روانہ کیا جس میں آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ سارا یمن مسلمان ہو گیا جب سورہ براَت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ کے ليے بحکم خدا آپ ہی مقرر ہوئے اور آپ نے جا کر مشرکین کو سورئہ براَت کی آیتیں سنائیں-
اس کے علاوہ رسالت مآب کی ہر خدمت انجام دینے پر تیار رہتے تھے- یہاں تک کہ یہ بھی دیکھا گیا کہ رسول کی جوتیاں اپنے ہاتھ سے سی رہے ہیں حضرت علی علیہ السّلام اسے اپنے ليے باعثِ فخر سمجھتے تھے۔
علی جو آئے تو علم پھیلا دہر میں فکر جمیل جاگی
ملک بشر پہ ہو جو نازاں تو قسمت سلسبیل جاگی
ملا خرد کو شعر اور آگہی کی دلیل جاگی
پروں کو جریل نے سمیٹا خوشا دعائے خلیل جاگی
علی کیخوشبو نبی سے آئے نبی نے خوشبو علی سے لی ہے
علی علی ہے ،علی علی ہے ،علی علی ہے ،علی علی ہے
(صفدر ہمدانی)
قرآن مجیداور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمات
اگر کوئی تاریخ اسلام پر صرف ایک سرسری سی نگاہ ڈالے تو اسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور قرآن مجید کے درمیان گہرے ربط کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ قرآن کی جمع آوری سے لیکر اسکی تفسیر وتاویل تک اور اعراب گذرای سے لیکر آج کی رائج قراٴت تک، ہر جگہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام ما ہ کامل کی مانند روشن و منور نظر آتا ہے۔
قرآن کی جمع آوری:
یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ قرآن کی جمع آوری سب سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں ہوئی۔
ابن ابی الحدیدمعتزلی نے شرح نہج البلاغہ میں یوں تحریر کیا ہے کہ
,, سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ امام حضرت علی کرم اللہ وجہہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں) قرآن حفظ کیا کرتے تھے (جبکہ کوئی دوسرا یہ کام نہیں کرتا تھا) اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سب سے پہلے وہ شخص ہیں جس نے قرآن کی جمع آوری کی‘ ‘
ابوالعلا و الموفق، خطیب خوارزمی نے علی بن رباح سے نقل کیا ہے کہ
,, پیامبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو قران کی تالیف کا حکم دیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی قرآن کو لکھا اور اس کی تالیف کی ( 2 ) یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں قرآن کی تالیف ،اسلام میں سب سے پہلی تالیف ہے۔
خود مولائے کائنات فرماتے ہیں کہ,
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی آیت نازل نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو آپ نے مجھے سکھایا اور لکھوایا اور میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور آپ نے اس کی تاویل و تفسیر و ناسخ و منسوخ مجھے بتایا “ (
علم نحو کی ایجاد اور قرآن کی اعراب گذاری:
علم نحو ایسا علم ہے جس کے بغیر قرآن کوسمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لئے خود عرب زبان کو بھی علم نحو کی تعلیم دی جاتی ہے۔
اس علم کے ایجادکے بارے میں تمام لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ امام حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے علم نحو کی تاسیس کی اور پھر ابو الاسود دویلی کو اس کی تعلیم دی۔
ابوالاسود دویلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کسی گہری سوچ میں غرق ہیں میں نے اس کا سبب پوچھا آپ نے کہا کہ تمھارے شہر کے (غیر عرب) لوگ قرآن کو غلط پڑھتے ہیں اس لئے میں عربی زبان کے اصول کو غیر عرب کے لئے لکھنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ میں نے کہا اگر آپ ایسا کریں تو یقینا عربی زبان ہم میں محفوظ ہو جائے گی ۔پھر کچھ دنوں بعد میں دوبارہ مولا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے میری طرف ایک صحیفہ بڑھایا جس میں تحریر تھا:
,, بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الکلام کلہ اسم و فعل و حرف فالاسم ما انباٴ عن المسمیٰ والفعل ما انباٴ عن حرکہ المسمی والحرف ماانباٴ عن معنی لیس باسم ولا فعل “
آپ نے مجھ سے کہا کہ تم اس کام کو آگے بڑھاؤ اور جان لو کہ
,, الاسماء ثلاثہ ظاہر و مضمر وشی, لیس بظاہر ولا مضمر وانما یتفاضل العلماء فی معرفہ ما لیس بمضمر ولا ظاہر “
اس کے بعد میں نے ذکر نہیں کیا تھا آپ نے پوچھا کہ تم نے ,,لکن“ کو کیوں نہیں ذکرکیا میں نے کہا کہ اسے میں نے نواصب میں سے نہیں سمجھا آپ نے فرمایا کہ یہ نواصب میں سے ہے اس لئے اسے بھی ان میں بڑھالو۔
اس کے بعد ایک دن جب ابوالاسود دویلی نے ایک شخص کو اس طرح قرآن پڑھتے دیکھا ,, ان اللہ بری من المشرکین و رسولہ“ (رسولہ لام کو زیر کےساتھ) تو انھوں نے قرآن کے حروف پر اعراب لگائے اس طرح سے کہ زبر کی جگہ حرف کے اوپر ایک نقطہ زیر کی جگہ حرف کے نیچے ایک نقطہ اور پیش کی جگہ حر ف کے سامنے ایک نقطہ لگایا تا کہ قرآن پڑھنے میں آسانی ہو (10 )
قرآن کی رائج قرائتیں:
یوں تو پہلے قرآن کی بہت سی قرائتیں تھیں لیکن اس وقت مشہور قرائتیں صرف 7 ہیں۔ ان ساتوں میں سب سے زیادہ مشہور رائج اور دقیق ،قراٴت عاصم ہے، اس قراٴت کو تمام مسلمین نے صحیح ترین اور معتبر ترین قراٴت مانا ہے۔
اس صحیح ترین اور معتبر ترین قراٴت کا سلسلہ امام حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے۔ اس لئے کہ عاصم نے یہ قراٴت ابوعبد الرحمٰن سے سیکھی اور ابوعبدالرحمٰن نے اس کے لئے امیر المومنین علیہ السلام کے سامنے زانو ادب تہہ کئے۔ اس طرح قرآن کی قراٴت کے بارے میں بھی امام حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنا فرض نبھایا تھا۔
مذکورہ امور کی وضاحت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کی سچائی کا پتہ چلتا ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ ,, علی مع القرآن والقرآن مع علی“ یعنی علی علیہ السلام قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی علیہ السلام کے ساتھ ہے۔
قرآن کے بارے میں امام حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وصیت
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا وہ نورانی بیان، جس میں عالم قیامت، روز محشر، اس دن پیروان قرآن کے اپنے اعمال سے راضی ہونے اور قرآن سے روگردانی کرنے والوں کو عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی ہے، اس میں لوگوں کو اس طرح وصیت فرماتے ہیں:
''فَکُونُوا مِنْ حَرَثَۃِ الْقُرآنِ وَ اَتْبَاعِہِ'' (1) قرآن کی بنیاد پر اپنے اعمال کی کھیتی کرنے والے اور اس کے پیرو ہو جاؤ، ''وَ اسْتَدِلُّوہُ عَلیٰ رَبِّکُمْ''
قرآن کو اپنے پروردگار پر دلیل و گواہ قرار دو، خدا کو خود اسی کے کلام سے پہچانو! اوصاف پروردگار کو قرآن کے وسیلہ سے سمجھو! قرآن ایسا رہنما ہے جو خدا کی طرف تمھاری رہنمائی کرتا ہے۔ اس الٰہی رہنما سے اس کے بھیجنے والے (خدا) کی معرفت کے لئے استفادہ کرو اور اس خدا پر جس کا تعارف قرآن کرتا ہے ایمان لاؤ۔
وَاسْتَنْصِحُوہُ عَلٰی انفُسِکُمْ ،
اے لوگو! تم سب کو ایک خیر خواہ اور مخلص کی ضرورت ہے تاکہ ضروری موقعوں پر تمھیں نصیحت کرے، قرآن کو اپنا ناصح اور خیر خواہ قرار دو اور اس کی خیر خواہانہ نصیحتوں پر عمل کرو، اس لئے کہ قرآن ایسا ناصح اور دل سوز ہے جو ہرگز تم سے خیانت نہیں کرتا ہے اور سب سے زیادہ اچھی طرح سے صراط مستقیم کی طرف تمھاری ہدایت کرتا ہے۔
اس بنا پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ مسلمانوں اور دنیا و آخرت کی سعادت کے مشتاق لوگوں کو وصیت فرماتے ہیں کہ قرآن کو اپنا رہنما قرار دیں اور اس کی مخلصانہ نصیحتوں پر کان دھریں، اس لئے کہ (انَّ ہٰذَا الْقُرآنَ یَہْدِيْ لِلَّتِي ہِيَ اقوَمُ وَ یُبَشِّرُ المُؤمِنِینَ الَّذِینَ یَعمَلُونَ الصَّالِحَاتِ انَّ لَہُم اجرًا کَبِیراً)(سورہئ اسرائ، آیت 9)
''بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے''۔
یہ بات بہت واضح ہے کہ قرآن کے تمام احکام و دستورات انسان کے نفسانی خواہشات اور حیوانی میلانات کے موافق نہیں ہیں۔ انسان اپنی طبیعت کے مطابق خواہشات رکھتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش کے مطابق ہو، اس بنا پر فطری بات ہے کہ جہاں قرآن انسان کے حیوانی و نفسانی خواہشات کے برخلاف بولے گا انسان اس سے ذرا سا بھی خوش نہ ہوگا اور جہاں آیات قرآن اس کی نفسانی خواہشات کے موافق ہوں گی وہ کشادہ روئی کے ساتھ ان کا استقبال کرے گا۔
تفسیر بالرائے
واضح ہے کہ نفسانی خواہشات سے ہاتھ اٹھانا او رالٰہی احکام اور قرآنی معارف کے سامنے سراپا تسلیم ہونا نہ صرف ایک آسان کام نہیں ہے، بلکہ جو لوگ عبودیت و بندگی کی قوی روح کے حامل نہیں ہیں ان کے لئے نفسانی خواہشات سے چشم پوشی کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے، اسی وجہ سے اسے جہاد اکبر بھی کہا جاتا ہے۔
قرآن کی اس طرح کی تفسیر و فہم کو دینی مکتب فکر میں تفسیر بالرائے سے تعبیرکیا جاتا ہے اور دین و قرآن کے ساتھ سب سے زیادہ برے قسم کا معاملہاور برتاؤ سمجھا جاتا ہے۔
قرآن دین اور آیات الٰہی کے ساتھ اس طرح کے برتاؤ کو استہزاء (مذاق) سمجھتا ہے اور صریحی طور پر اس سے منع کرتا ہے:
وَ لاتَتَّخِذُوْا آیاتِ اللّٰہِ ہُزُواً وَ اذْکُرُوْا نِعمَۃَ اللّٰہِ عَلَیکُمْ وَ مَاانزَلَ عَلَیکُمْ مِنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہِ وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْا انَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیءٍ عَلِیمٍ) (سورہ بقرہ، آیت 231)
یعنی ''خبردار! آیاتالٰہی کو مذاق نہ بناؤ اور خدا کی نعمت کو یاد کرو اور اسنے کتاب و حکمت کو تمھاری نصیحت کے لئے نازل کیا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یادرکھو! کہ وہ ہر شے کا جاننے والا ہے''۔
دوسرے بیان میں پیغمبر(ص) سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا
''مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَایِہِ فَقَدِ افْتَرَیٰ عَلٰی اللّٰہِ الکَذِبَ'' (3) جس شخص نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور اپنی فکر سے کی وہ یقینا خدا پر جھوٹ باندھتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں
''وَاتَّھِمُوا عَلَیہِ آرَائَکُم'' (5) جس وقت تم قرآن کی تفسیر کرنا چاہو تو اپنے خیالات و آراء اور افکار و نظریات کو قرآن کے سامنے غلط سمجھو، اپنی شخصی آراء اور نظریات اور نفسانی خواہشات کو چھوڑ دو، اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی لفظوں میں، اپنے کو قرآن کے سامنے متہم کرو اور غلط سمجھو!۔
''وَاسْتَغِشُّوافِیہِ اَہوَائَکُمْ'' اپنی خواہشات کو فریب خوردہ اور غلط سمجھو تاکہ قرآن سے صحیح استفادہ کرسکو ورنہ ہمیشہ خطا اورانحراف سے دوچار ہوگے۔
اس بنا پر دین کا جوہر ہےکہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے، اقتضا کرتا ہے کہ انسان صرف خداوند متعال کا مطیع ہو اور خدا کے احکام، قرآن کریم کے دستورات کے مقابلہ میں اپنی رائے، نظر، خود پسندی اور کج فکری کو باطل سمجھے، جس وقت ایسی روح انسان پر غالب و حاکم ہوگی ۔
حضرت علی (ع) کی علمی شخصیت
پیغمبر عظیم الشان اسلام کا ارشاد گرامی ھے کہ ”میں علم کا شھر ھوں اور علی اس کا دروازہ“ ، جن افراد کو شھر علم تک پہنچنا ھے ان کو دو دفعہ علی (ع) کا محتاج ھونا ضروری ھے ایک دفعہ جاتے ھوئے اور دوسری مرتبہ واپس آتے ھوئے، امام علیہ السلام نہج البلاغہ میں اپنی علمی شخصیت کو یوں بیان کرتے ھیں:
فَاٴسْاٴلُوْنِي قَبْلَ اٴنْ تَفْقِدُوْنِي فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِیَدِہِ لَاتَسْاٴلُوْنِي عَنْ شَيٍ فِیْمَا بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ السَّاعَةِ وَ لَا عَنْ فِیٴةٍ تَہْدِي مِاَئةً وَ تُضِلُّ مِاَئةً إلاَّ اٴَنْبَاتُکُمْ بِنَاعِقَہَا وَ قَائِدَہَا وَ سَائِقِہَا“
”مجھ سے بوچھ لو قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان نہ رھوں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ھے، ممکن نھیں ھے کہ تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمھیں جواب نہ دے سکوں، میں آج سے قیامت تک کے واقعات کی خبر دے سکتا ھوں، ایک گروہ جو سو بندوں کو ھدایت کرتا ہ ے یا سو بندوں کو گمراہ کرتا ھے وہ بھی بتا سکتا ھوں، اُن کے ھانکنے والے ان کے رہبروں اور ان کے سربراھوں کے بارے میں مطلع کرسکتاھوں“۔
یہ کلمات امام علی علیہ السلام کے علم کی ایک جھلک ھے، اور شاھد ھے کہ کائنات میں آپ جیسا عالم نہ تھا نہ ھوگا، اور یہ آپ کی اولویت پر واضح دلیل ھے۔
علی کا لہجہ خدا کا لہجہ زبان قران کی زباں ہے
علی شجاعت میں حرف آخر محبت کا آسماں ہے
علی امامت کا ماہ کامل علی رسالت میں بھی عیاں ہے
علی سے لوح و قلم کی قسمت علی ابد تک کی کہکشاں ہے
ہر اک حکومت ہر یک خلافت علی کے ٹکڑوں پہ ہی پلی ہے
علی علی ہے ،علی علی ہے ،علی علی ہے ،علی علی ہے ،
(صفدر ہمدانی)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی چار سال نو ماہ کا دور خلافت
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تین مر تبہ خلافت کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھا جس کی تفصیل ابنِ کثیر نے لکھی ہے۔ پہلی مرتبہ فو را ً حضور اکرم کے انتقال کے بعد جب حضرت عباس نے فر مایا کہ چلو جہا ں خلیفہ کا انتخا ب ہو رہا ہے، ہم بھی چلیں مگر حضرت علی نے انکا ر فر مادیا ،کہ آپ چا ہیں تو تشریف لے جا ئیں میں نہیں جا ؤنگا ۔
پھر دوسرا واقعہ یہ ہو تا ہے کہ حضرت عمر نے ایک پینل بنا دیا کہ خلیفہ ان میں سے ہو گا، جن میں سے حضرت علی کثرتِ را ئے سے منتخب ہو گئے، حضرت عبد الر حمٰن بن عوف نے ان کا ہا تھ پکڑ کر کے فر مایا کہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کر تا ہوں، کیا آپ اللہ، رسول اور شیخین کا اتبا ع فر ما ئیں گے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اگر خلیفہ بننا چا ہتے تو فر ما سکتے تھے کہ ہاں !اور بعد میں اس سے پھر جا تے جیسے کہ تا ریخِ اسلام میں لو گ معا ہدوں سے پھر تے رہے ہیں ۔مگر انہوں نے یہ فر ماکر خلافت رد فر مادی کہ نہیں ! میں شیخین کا اتبا ع نہیں کرو نگا۔
انہو ں نے یہ ہی سوال حضرت عثمان سے کیا اور انہو ں نے اقرار کر لیا، لہذا سب نے ان کے ہا تھ پر بیعت کر لی۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عثمان کی شہا دت کے بعد سب حضرت علی کے آگے پیچھے گھو م رہے ہیں، کو ئی اور آگے بڑھنے کو تیا ر نہیں ہے۔ لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک با غ میں جا کر چھپ جا تے ہیں۔ مگر لو گ وہا ں بھی ڈھو نڈ لیتے ہیں ۔ کہ اب آپ کے سوا کو ئی بھی نہیں ہے جو دین کو بچا سکے ،تو بھی آپ فر ماتے ہیں کہ تین دن تک خلا فت خالی رکھو تین دن میں بھی جب کو ئی دعویدار نہیں بنتا ہے تو آپ مجبو راً قبول فر ما لیتے ہیں کہ دین کو بچا نا تھا ۔ اس لیئے کہ جو شخص جو کی رو ٹی کھا تا ہو ، مو ٹے جھو ٹے کپڑے پہنتا ہو، اس کے لیئے کسی قسم کی حکو مت سوا ئے مزید ذمہ داری کے کچھ بھی نہیں تھی۔
یہاں وہ حدیث بھی ہمارے سامنے ہے کہ حضور اکرم نے فر مایا کہ علی سے بغض مت رکھو ، جس نے اس سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور یہ کہ وہ تم سب میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈر نے والا ہے ً اور یہ ہی الفا ظ غزوہ خیبر کے مو قعہ پر ارشاد فر ما ئے ۔ کہ ً میں کل ایسے شخص کو جھنڈا دو نگا جو کہ اس قلعہ کو فتح کریگا اور جس کو اللہ اور اس کے رسول سب سے زیادہ پسند کر تے ہیں ۔ لوگ تمام رات منتظر رہے صبح جس کو ملا وہ سب کو معلوم ہے ۔وہ مولائے کایئنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت ایک انقلابی تحریک تھی ۔ ان کے مخالفین اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر کسی بھی جرم، غداری اور اسلامی قوانین کی واضح اور اعلانیہ خلا ف ورزی کی پروا نہیں کرتے تھے اور ھر بدنامی کو اپنے صحابی اور مجتہد ھونے کے بہانے سے دھوڈالتے تھے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ اسلامی قوانین پر سختی سے کار بندرھتے تھے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی خلافت کے پہلے دن کاخطاب
”خبر دار !تم لوگ جن مشکلات و مصائب میں پیغمبر اکرم کی بعثت کے موقع پر گرفتار تھے آج دوبارہ وھی مشکلات تمھیں در پیش ھیں اور انھی مشکلات نے پھر تمھیں گھیرلیا ھے ۔
تمھیں چاھئے کہ اپنے آپ کو ٹھیک کرلو صاحبان علم و فضیلت کو سامنے آنا چاھئے جو پیچھے دھکیل دئیے گئے ھیں اور وہ لوگ جو ناجائز اور بےجا طور پر سامنے آگئے ھیں ان کو پیچھے ھٹا دینا چاھئے ۔
آج حق وباطل کا مقابلہ ھے ، جو شخص اہلیت و صلاحیت رکھتاھے اسے حق کی پیروی کرنی چاھئے ۔ اگر آج ھر جگہ باطل کا زور ھے تو یہ کوئی نئی چیز نھیں ھے اور اگر حق کم ھوچکا ھے تو کبھی کبھی ھوتا ھے کہ جو چیز ایک دفعہ ھاتہ سے نکل جائے وہ پھر دوبارہ واپس آجائے ۔،،(نھج البلاغہ خطبہ 15)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور خلافت میں ان کی خدمات اور اصلاحات میں عقلی ، دینی اور اجتماعی علوم و فنون کے بارے میں گیارہ ھزار مختصر لیکن پر معنی متفرقہ فقرے موجود ھیں۔
(1) آپ نے اپنے خطبوں کے دوران اسلامی علوم ومعارف
(2) کونہایت فصیح و بلیغ اور سلیس و رواں زبان میں بیا ن کیا ھے ۔
(3) آپ نے عربی زبان کی گرامر بھی تدوین کی اور اس طرح عربی زبان وادبیات کی بنیادڈالی تھی ۔ آپ اسلام میں سب سے پھلے شخص ھیں جس نے الہی اور دینی فلسفے پرغور و خوض کیا تھا۔
(4) آپ ھمیشہ آزاد استدلال اور منطقی دلائل کے ساتھ گفتگو کیا کرتے تھے اور وہ مسائل جن پردنیا کے فلسفیوں نے بھی اس وقت تک توجہ نھیں کی تھی ، آپ نے ان کو پیش کیا اور اس بارے میں اس قدر توجہ اورانھماک مبذول فرماتے تھے
5) حتیٰ عین جنگ کے دوران(بھی آپ(ع) علمی بحث ومباحثہ میں مشغول ھوجاتے تھے ۔
6) آپ نے اسلامی ، مذھبی اور دینی دانشوروں پرمشتمل ایک بہت بڑی جماعت تربیت دی تھی ۔ان افراد کے درمیان نہایت پارسا ، زاھد اور اھل علم و معرفت افرادمثلا ً اویس قرنی ، کمیل بن زیاد ، میثم تماراور رشید ھجری وغیرہ موجود تھے جواسلامی عرفاء اورعلماء میں علم و عرفان کے سرچشمے مانے اور پہچانے جاتے ھیں ۔
7 اس کے علاوہ ایک دوسری جماعت کی تشکیل اورتربیت کی تھی جس میں بعض لوگ علم فقہ ، علم کلام ، علم تفسیر اور علم قراٴت وغیر ہ میں اپنے زمانے کے بہتیرین علماء اور اساتذہ شمار ھوتے تھے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنے زمانہ خلافت میں جو تقریباً چار سال نو مہینے جاری رھا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور روش پر عمل پیرا رھے۔ آپ نے اپنی خلافت کو ایک تحریک یا انقلاب میں تبدیل کردیا اور اس کے ساتھ اصلاحات بھی شروع کیں لیکن چونکہ یہ اصلاحات بعض مفاد پرست لوگوں کے نقصان میں تھیں اس لئے بعض اصحاب پیغمبر جن میں حضرت عائشہ صدیقہ ، طلحہ، زبیر، اور امیر معاویہ تھے، خلیفہ سوم حضرت عثمان (رض) کے خون کو بہانہ بنا کر آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ھوگئے اور اس طرح انہوں نے شورش شروع کردی ۔
حضرت علی نے اس سورش کو روکنے کے لئے ام المومنین حضرت عائشہ ،طلحہ اورزبیر کے ساتھ بصرہ کے نزدیک جنگ کی جو -------”جنگ جمل“کے نام سے مشہورھے۔
ایک دوسری جنگ امیر معاویہ کے ساتھ عراق اورشام کی سرحد پر لڑی جس کو ”جنگِ صفین“کہا جاتا ھے ۔ یہ جنگ ڈیڑھ سال تک جاری رھی۔
اسی طرح ایک اور جنگ نہروان کے علاقے میں خوارج کے ساتھ کی جس کو”جنگِ نہروان“کھتے ھیں۔ آپ کے زمانہ خلافت میں آپ کا زیادہ وقت داخلی شورشوں اور فتنوں کو ختم کرنے میں گزرا۔
امام شافعی رضوان اللہ علیہ فرماتے ہیں ”میں اس ہستی کے بارے میں کیا کہوں جس میں تین صفتیں ایسی تین صفتوں کے ساتھ جمع تھیں جو کسی اوربشر میں جمع نہیں ہوئیں، فقر کے ساتھ سخاوت، شجاعت کے ساتھ تدبرورائے اورعلم کےساتھ عملی کارگزاریاں۔
مکتوباتِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ
حضرت سید ابوالحسن علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آغوش رسالت میں پرورش پائی شمع نبوت سے براہ راست اکتاب نور کیا، قرآن مجید اور رحمت دو عالم کی مراسلہ نگاری آپ ہی سے متعلق رہی جو آپ کو دوسرے ہم عصروں سے ممتاز کرنے میں ممدو معاون ہوئی واقعہ یہ ہے کہ انبیائے کرام کے علاوہ کسی شخصیت میں تمام صلاحیتیں یکجا دکھائی دیتی ہیں تو وہ حضرت سید ابوالحسن کرم اللہ وجہ الکریم کی ذات گرامی ہے، علم و عمل، خطابت، شجاعت، سخاوت، تدبر و حلم اور انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال حضرت سید ابوالحسن کرم اللہ وجہ الکریم کے خطبات و مکتوبات اور اقوال عربی ادب میں بلند پایہ حیثیت کے حامل ہیں۔
مکتوبات حضرت علی قدم قدم پر علم و کمال کے نئے راز ہائے سربستہ سے پردہ اٹھاتے ہیں یہ ایک ایسی شخصیت کے مکتوبات ہیں جو بعد از رسول سب سے بلند تر صاحب علم و عمل ہیں، مگر بُعد میں جکڑے ذہنوں نے اسے صرف رسول اکرم کے عم زاد، داماد اور چوتھے خلیفہ کے طور پر ہی دیکھا اور رکھا حالانکہ ارشاد رسالت مآب موجود ہے ”میں علم کا شہر اور علی اس کا دروازہ ہیں“۔
حضرت عثمان فرماتے ہیں ”یوں تو خطابت میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر (رض) بھی مشہور تھے لیکن دونوں حضرات اپنے خطبے تیار کر کے لاتے تھے مگر حضرت ابوالحسن علی جو کچھ فرماتے تھے فی البدیہہ اور ارتجالاً فرماتے تھے۔ (البیان والسبین 2/591)
امام العالمین حضرت سید ابوالحسن علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قرآن و احادیث کے بعد سب سے پہلے اور آپ کی زندگی میں ہی آپ کے ملفوظات نے مدون ہو کر کتابی شکل اختیار کر لی تھی۔ آپ کی زبان سے نکلے ہوئے جملے چوٹی کے ادیبوں اور مایہ ناز خطیبوں نے اپنی تقریروں میں دہرانے شروع کر دیئے تھے۔
مفتی شیخ محمد حمید متوفی لکھتے ہیں
علی ابن ابی طالب کرم اللہ ایک نورانی عقل جو جسمانی مخلوق سے کسی حیثیت سے بھی مشابہ نہیں ہے“۔ حضرت سید ابوالحسن علی کرم اللہ وجہہ تلوار کے ایسے دھنی ہیں کہ ان سا دوسرا کوئی نہیں مگر جب آپ کے افکار یکجا کئے جائیں تو لسانیات، عمرانیات اور ادبیات کے ماہرین حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ یہ ادب پارے کسی ایسے شخص کے بھی ہو سکتے ہیں جس کی تلوار کی چمک اور کھنک ہی مقابل کی روح کھینچ لیا کرتی تھی۔
1 والی بصرہ عبداللہ ابن عباس کے نام:
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بصرہ وہ جگہ ہے جہاں شیطان اترتا ہے اور فتنے سر اٹھاتے ہیں ،یہاں کے باشندوں کو حسنِ سلوک سے خوش رکھو ، اور ان کے دلوں سے خوف کی گرہیں کھول دو،مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم بنی تمیم سے درشتی سے پیش آتے ہو اور ا ن پر سختی روا رکھتے ہو۔
بنی تمیم تو وہ ہیں کہ جب بھی ان کا کوئی ستارہ ڈوبتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا ابھر آتا ہے،اور جاہلیت اور اسلام میں کوئی ان سے جنگ جوئی میں بڑھ نہ سکا ،اور پھر انہیں تم سے قرابت کا لگاؤ اور عزیز داری کا تعلق بھی ہے کہ اگر ہم اس کا خیال رکھیں گے تو اجر پائیں گے،اور اس کا لحاظ نہ کریں گے تو گناہگار ہوں گے،دیکھو ابنِ عباس!خدا تم پر رحم کرے( رعیت کے بارے میں) تمہارے ہاتھ اور زبان سے جو اچھائی اور برائی ہونے والی ہو ، اس میں جلد بازی نہ کیا کرو، کیونکہ ہم دونوں اس ( ذمہ داری) میں برابر کے شریک ہیں تمہیں اس حسنِ ظن کے مطابق ثابت ہونا چاہیے جو مجھے تمہارے ساتھ ہے، اور تمہارے بارے میں میری رائے غلط ثابت نہ ہونا چاہیے۔
والسلام۔
2 ایک عامل کے نام:۔
تمہارے شہر کے زمینداروں نے تمہاری سختی ،سنگدلی ،تحقیر آمیز برتاؤ اور تشدد کے رویہ کی شکایت کی ہے۔میں نے غور کیا تو وہ شرک کی وجہ سے اس قابل تو نظر نہیں آتے کہ انہیں نزدیک کیا جائے اور معاہدے کی بنا پر انہیں دور پھینکا اور دھتکارا بھی نہیں جا سکتا۔
لہذا ان کے لیے نرمی کا ایسا شعار اختیار کرو جس میں کہیں کہیں سختی کی جھلک بھی ہو،اور کبھی سختی کر لو اور کبھی نرمی برتو اور قرب و بعد اور نزدیکی و دوری کو سمو کر بین بین راستہ اختیار کرو۔
والسلام۔
3 زیاد ابنِ ابیہ کے نام:۔
میں اللہ کی سچی قسم کھاتا ہوں کہ اگر مجھے یہ پتہ چل گیا کہ تم نے مسلمانوں کے مال میں خیانت کرتے ہوئے کسی چھوٹی یا بڑی چیز میں ہیر پھیر کیا ہے تو یاد رکھو! کہ میں ایسی مار ماروں گا کہ جو تمہیں تہی دست و بوجھل پیٹھ والا اور بے آبرو کر کے چھوڑے گی۔
والسلام۔
4 زیاد ابن ابیہ کے نام ایک اور مکتوب :۔
میانہ روی اختیار کرتے ہوئے فضول خرچی سے باز آؤ ، آج کے دن کل کو بھول نہ جاؤ،صرف ضرورت بھر کے تحت مال روک کر باقی محتاجی کے دن کے لیے آگے بڑھاؤ،کیا تم یہ آس لگائے بیٹھے ہو کہ اللہ تمہیں عجزو انکساری کرنے والوں کا اجر دے گا،حالانکہ تم اس کے نزدیک متکبروں میں سے ہو،اور یہ طمع رکھتے وہ کہ وہ خیرات کرنے والوں کا ثواب تمہارے لیے قرار دے گا، حالانکہ تم عشرت سامانیوں میں لوٹ رہے ہو اور بے کسوں اور بیواؤں کو محروم رکھا ہے ،انسان اپنے ہی کیے کی جزا پاتا ہے اور جو آگے بھیج چکا ہے وہی آگے بڑھ کر پائے گا ۔ والسلام۔
5 عبداللہ ابن عباس کے نام :۔
عبداللہ ابن عباس کہا کرتے تھے کہ جتنا فائدہ میں نے اس کلام سے حاصل کیا اتنا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کلام سے حاصل نہیں کیا:۔
انسان کو کبھی ایسی چیز کا پا لینا خوش کرتا ہے جو اس کے ہاتھوں سے جانے والی ہو تی ہی نہیں اور کبھی ایسی چیز کا ہاتھ سے نکل جانا اسے غمگین کر دیتا ہے جو اسے حاصل ہونے والی ہوتی ہی نہیں۔
یہ خوشی اور غم بے کار ہے،تمہاری خوشی صرف آخرت کی حاصل کی ہوئی چیزوں پر ہونا چاہیے۔اور اس میں کوئی چیز جاتی رہے اس پر رنج ہونا چاہیے۔اور جو چیز دنیا سے پا لو اس پر زیادہ خوش نہ ہو اور جو چیز اس سے جاتی رہے اس پر بے قرار ہو کے افسوس کرنے نہ لگوبلکہ تمہیں موت کے بعد پیش آنے والے حالات کی طرف اپنی توجہ موڑنا چاہیے۔
6 جب حضرت کو یہ خبر پہنچی کہ والی بصرہ عثمان ابن حنیف کو وہاں کے لوگوں نے کھانے کی دعوت دی ہے اور وہ اس میں شریک ہوئے ہیں تو انہیں تحریر فرمایا:۔
اے ابنِ حنیف!
مجھے اطلاع ملی ہے کہ بصرہ کے جوانوں میں سے ایک شخص نے تمہیں کھانے پر بلایا اور تم لپک کر پہنچ گئے کہ رنگا رنگ کے عمدہ عمدہ کھانے تمہارے لیے چن چن کر لائے جا رہے تھے ، اور بڑے بڑے پیالے تمہاری جانب بڑھائے جا رہے تھے ، مجھے امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن کے ہاں فقیر و نادار دھتکارے گئے ہوں اور دولت مند مدعو ہوں،جو لقمے چباتے ہو انہیں دیکھ لیا کرو،اور جس کے متعلق شبہ بھی ہو اسے چھوڑ دیا کرو اور جس کے پاک و پاکیزہ طریق سے حاصل ہونے کا یقین ہو اس میں سے کھاؤ۔
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر مقتدی کا ایک پیشوا ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور جس کے نورِ علم سے کسبِ ضیاء کرتا ہے،دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس نے دنیا کے سازو سامان سے دو پھٹی پرانی چادر وں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔میں مانتا ہوں کہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے، لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیز گاری ، سعی و کوشش ،پاک دامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو.
خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا،اور نہ اس کے مال و متاع میں سے انبار جمع کر رکھے ہیں اور نہ ان پرانے کپڑوں کے بدلے میں جو( پہنے ہوئے ہوں) اور کوئی پرانا کپڑا میں نے مہیا کیا ہے،بے شک اس آسمان کے سایہ تلے لے دے کر ایک فدک ہمارے ہاتھوں میں تھا، اس پر بھی کچھ لوگوں کے منہ سے رال ٹپکی اور دوسرے فریق نے اس کے جانے کی پرواہ نہیں کی،اور بہترین فیصلہ کرنے والا اللہ ہے، بھلامیں فدک یا فدک کے علاوہ کسی اور چیز کو لے کر کروں گا ہی کیا جبکہ نفس کی منزل قبر قرار پانے والی ہے جس کی اندھیاریوں میں اس کے نشانات مٹ جائیں گے اور اس کی خبریں ناپید ہو جائیں گی.
وہ تو ایک گڑھا ہے کہ اگر اس کا پھیلاؤ بڑھا بھی دیا جائے اور گورکن کے ہاتھ اسے کشادہ بھی رکھیں جب بھی پتھر اور کنکر اس کو تنگ کر دیں گے،اور مسلسل مٹی کے ڈالے جانے سے اس کی دراڑیں بند ہو جائیں گی، میری توجہ تو صرف اس طرف ہے کہ میں تقوائے الہٰی کے ذریعے اپنے نفس کو بے قابو نہ ہونے دوں تاکہ اس دن کہ جب خوف حد سے بڑھ جائے گا، وہ مطمئن رہے اور پھسلنے کی جگہوں پر مضبوطی سے جما رہے .
اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد، عمدہ گہیوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کے لیے ذرائع مہیا کر سکتا تھا لیکن ایسا کہاں ہو سکتا ہے کہ خواہشیں مجھے مغلوب بنا لیں اور حرص مجھے اچھے اچھے کھانے چن لینے کی دعوت دے،جبکہ حجاز و یمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں جنہیں ایک روٹی کے ملنے کی بھی آس نہ ہو،اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ہوا ہو،کیا میں شکم سیر ہو کر پڑا رہا کروں،درانحالیکہ میرے گرد و پیش بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر تڑپتے ہوں،یا میں ایسا ہو جاؤں جیسا کہنے والے نے کہا ہے کہ تمہاری بیماری کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو،اور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کی ترس رہے ہوں،کیا میں اسی میں مگن رہوں کہ مجھے امیر المومنین کہا جاتا ہے .
مگر میں زمانے کی سختیوں میں مومنوں