میرے لئے اپنے دیس میں لکھنا جتنا آسان ھے اتنا مشکل بھی ھے آپ کہیں گے یہ کیا بات ہوئی تو شاید اس کا جواب میں ٹھیک سے نہ دے
پاؤں اس کی وجہ اپنے دیس سے وہ محبت ھے جو میرے دل میں ھے، مجھے پاکستان سے اس قدر محبت ھے کہ یہاں اگر کبھی کوئی چیز دیکھوں جس پہ میڈ
ان پاکستان لکھا ہو تو میری آنکھیں بھر آتی ھیں ، میں خود کو پاکستانی کہلوانے میں فخر محسوس کرتی ہوں جبکہ آج کل کے حالات میں لوگ پاکستان کی پ
بھی زبان پہ نہیںآنے دیتے،
بارش کے بعد اپنی مٹی کی وہ خوشبو ، سخت گرمی میں گہرے کالے بادلوں کا امڈ کے آنا بہار میں پھولوں کی مہک کس کس چیز کا ذکر کروں ، یہاں تو
درخت بھی اجنبی لگتے ھیں پرندے بھی ، نہ کوئل کی کوکو ھے نہ کوے کی کائیں کائیں ،
میں نے اپنے کچھ دوستوں سے کہا کہ میں تو گلی میں آئس کریم یا دوسرے پھیری والوں کیآوازیں حتی کہ رکشے کی آواز کو بھی مس کرتی ہوں تو سب
نے مل کے میرا مذاق اڑایا ، مگر میںخود کو نہیں بدل سکتی اتنے سال یہاں پردیس میں رھنےکے باوجود اب بھی ٹی وی پہ مجھے لاہور کی کوئی سڑک کوئی
باغ کوئی عمارت نظر آ جاتی ھے تو میری دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ھیں مجھے لگتا ھے جیسا میرا وجود تو یہاں ھے میری روح وھیں رہ گئی ھے میں
کوشش کے باوجود اپنے دیس کے ماحول سے وہاں کی یادوں سے خود کو الگ نہیں کر پائی، دیس کی محبت میں میری رگ رگ میں بسی ھے
جب بھی سوچتی ہوں کہ اب کبھی ممکن نہیں ہو گا وہ درختوں پہ جھولے ڈالنا سکھیوں کے سنگ باغوں میں جاکے چوری چوری آم امرود توڑنا ، کچھ یادیں
خواب ہو جاتی ھیں ہم اس ماحول میں کبھی لوٹ نہیں سکتے
کاش ہمارے دیس کے حالات ایسے ہوتے کہ ہم سب وہاں سکون سے رہ سکتے تو آج ہزاروں یا لاکھوں لوگ پردیس کا عذاب نہ جھیل رھے ہوتے، میری
دعا ھے کہ خدا ہمارے پیارے دیس کو سلامت رکھے دشمنوں کی بد نظر سے محفوظ رکھے اور ہم سب کو ہدایت دے کہ ہم اس کی حفاظت کرنے والے
بنیں نہ کہ جڑیں کھوکھلی کرنے والے
خوشی کا بلاگ